عالمی یوم خواتین: دنیا بھر میں حقوق کیلئے ’عورت مارچ‘ کا انعقاد

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2023
میڈرڈ میں عورت مارچ کے دوران جامنی رنگ میں ملبوس خواتین کا سمندر امڈ آتا ہے —فوٹو:اے ایف پی
میڈرڈ میں عورت مارچ کے دوران جامنی رنگ میں ملبوس خواتین کا سمندر امڈ آتا ہے —فوٹو:اے ایف پی

عالمی یوم خواتین کے موقع پر دنیا بھر میں خواتین اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے آج بڑی تعداد میں ریلیاں نکال رہی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں عورت مارچ، ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

اس موقع پر اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں بھی عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جہاں سڑکوں پر جامنی رنگ، جسے اکثر خواتین کے حقوق سے منسلک کیا جاتا ہے، میں ملبوس خواتین کا سمندر امڈ آتا ہے۔

بدھ کے روز تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں بھی عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جہاں درجنوں خواتین پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہوئیں اور قانون سازوں سے گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے طویل عرصے سے زیر التوا بل منظور کرنے پر زور دیا اور کچھ خواتین نے ’انڈونیشین خواتین زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے۔

طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان کی جامعات میں خواتین پر پابندی، مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر ایران کا جبر، اسقاط حمل کے حقوق پر نئی امریکی پابندیاں اور یوکرین جنگ کے خواتین پر اثرات سمیت دنیا بھر میں کئی ایسے مسائل معاملات ہیں جو وجہ احتجاج ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے عالمی پیش رفت ’ہماری آنکھوں کے سامنے غائب ہوتی جارہی ہے‘ اور صنفی مساوات کے دور ہوتے ہدف کو حاصل کرنے میں مزید تین صدیاں لگیں گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے گزشتہ روز کمیشن آف دی اسٹیٹس آف ویمن کی سربراہی میں ہونے والی 2 ہفتوں پر محیط گفت و شنید کا آغاز کرتے ہوئے 8 مارچ کو عالمی یومِ نسواں سے قبل جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ رفتار پر صنفی مساوات مزید دور ہوتی جارہی ہے اور اقوام متحدہ کی خواتین اسے 300 سال کی دوری پر دیکھتی ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے، یہ خطرے سے دوچار ہیں اور ان کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں‘۔

افغان یونیورسٹیاں پیر کے روز موسم سرما کی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھل گئیں لیکن صرف مرد ہی کلاسوں میں واپس آئے جب کہ 18 ماہ قبل ملک کا اقتدار سنبھالنے والے طالبان حکام کی جانب سے خواتین پر اعلیٰ تعلیم پر عائد پابندی تاحال برقرار ہے ۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر یورپی یونین نے خواتین کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی کے ذمہ دار سمجھے جانے والے افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کر دیں۔

طالبان کے ہائر ایجوکیشن کے وزیر ندا محمد ندیم پر خواتین کو یونیورسٹی تعلیم سے محروم رکھنے پر پاندیاں عائد کی گئیں، ان کے علاوہ پانچ دیگر ممالک ایران، روس، جنوبی سوڈان، میانمار اور شام کے حکام پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ فرانس سمیت یورپ کے کئی ممالک میں مارچ کا انعقاد کیا جائے گا جہاں مظاہرین تقریباً 150 قصبوں اور شہروں میں ’روزگار اور زندگی دونوں میں برابری‘ کا مطالبہ کریں گے جب کہ مظاہروں کی یہ تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

مظاہروں کے دوران فرانس کی غیر مقبول پنشن اصلاحات کے خلاف جاری مزاحمت کو اجاگر کیا جائے گا جب کہ ان اصلاحات کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہیں۔

اس دن کو لندن میں مادام تساؤ میوزیم میں ایملین پنکھرسٹ کے مومی مجسمے کی نقاب کشائی کے ساتھ منائے گا جنہوں نے 120 سال قبل خواتین کے حق رائے دہی کے حصول کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔

پاکستان میں جہاں لبرل مغربی اقدار کو فروغ دینے اور مذہبی و ثقافتی حساسیت کا احترام نہ کرنے پر مارچ کرنے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں منتظمین کو مظاہروں کے انعقاد کے لیے متعدد عدالتی سماعتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں