مردم شماری کی ٹیموں کو شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ان گنت مسائل کا سامنا

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2023
مردم شماری کی ایک اور خاتون اہلکار نے انہیں فراہم کردہ ٹیبلیٹ کے بارے میں شکایت کی — تصویر: وائٹ اسٹار
مردم شماری کی ایک اور خاتون اہلکار نے انہیں فراہم کردہ ٹیبلیٹ کے بارے میں شکایت کی — تصویر: وائٹ اسٹار

پاکستان ادارہ شماریات کے شمار کنندگان کو گھر گھر جاکر مردم شماری کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے کام کی راہ میں ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔

ڈان نے بہت سے شمار کنندگان سے بات کی ہے اور عام شکایت یہ سامنے آئی ہے کہ لوگ ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔

مردم شماری کی ٹیم کے ایک رکن نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ وہ ذاتی معلومات مانگنے والے اجنبی پر بھروسہ نہیں کرتے لیکن وہ ہماری شناخت کے ثبوت پیش کرنے کے بعد بھی تعاون نہیں کرتے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ وہ واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر پیغامات دیکھتے ہیں جو انہیں کسی کے ساتھ ذاتی معلومات شیئر کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہیں‘۔

رکن نے کہا کہ ہم سب اساتذہ ہیں، سرکاری ملازم، کیا ہمارا رویہ ہمارا برتاؤ انہیں یہ نہیں بتاتا کہ ہم لٹیرے نہیں ہیں۔

مردم شماری کی ایک اور خاتون اہلکار نے انہیں فراہم کردہ ٹیبلیٹ کے بارے میں شکایت کی۔

انہوں نے کہا کہ وہ یا تو ناقص ہیں یا کسی ناقص نظام پر چل رہے ہیں، سسٹم ہر آدھے گھنٹے بعد کریش ہو جاتا ہے، پھر ہمیں دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں تک کہ اگر ہمیں اپارٹمنٹ کی عمارت میں اوپر جانے کی ضرورت ہے، تو بھی سسٹم پہلی منزل سے ہی کریش ہوجاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں عمارتوں کے مکینوں سے درخواست کرنی پڑی کہ وہ اپنا ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے مہربانی کر کے نیچے آئیں اور یہ آسان نہیں ہے کیونکہ لوگ ویسے بھی بہت شکی ہیں اور پھر انہیں ہم سے ملنے کے لیے نیچے آنے کے لیے کہنا ناممکن کے قریب ہے۔

خاتون رکن نے بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ صرف میرا ٹیبلیٹ ہی خراب ہے، دوسرے ساتھیوں کو بھی سسٹم کے ساتھ اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے‘۔

ایک اور اہلکار نے کہا کہ اسے خود یقین نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ میں ان لوگوں پر الزام نہیں لگا سکتا جن کے ساتھ اعتماد کے مسائل ہیں، ہمیں تجارتی علاقوں اور شاپنگ مالز کے دکانداروں سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کو بھی کہا جا رہا ہے، پھر جب وہ اس خط کو دیکھتے ہیں جو ہم لے کر جا رہے ہیں تو وہ اس کے مواد کو دیکھنے کے فوراً بعد اعتراض کرتے ہیں۔

مردم شماری ٹیم کے رکن نے مزید کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ چونکہ ان کی دکانیں اور کاروبار رجسٹرڈ ہیں اور وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس لیے ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ہمارے سی این آئی سی (کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ) نمبر نہ مانگنے یا نوٹ نہ کرنے پر بھی قدرے حیران ہیں، اس کے بجائے ہمیں ان کے فون نمبرز کا ریکارڈ بنانے کو کہا گیا ہے۔

ان کے مطابق لوگ پوچھتے ہیں کہ ’یہ کس قسم کی مردم شماری ہے؟‘ اور ہم بھی دل میں اپنے آپ سے یہی سوال پوچھ رہے ہیں’۔

عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے مسائل ڈان کے ساتھ شیئر کیے۔

شماریاتی ٹیم کے ایک اور رکن نے کہا کہ ہم سب حکومت کے لیے کام کرتے ہیں اور ہم اپنے لیے غیر ضروری پریشانی نہیں چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے محسوس کیا کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ یہاں مردم شماری کے انعقاد میں ہمارے خیال میں کیا عجیب یا غلط ہے کیونکہ مناسب مردم شماری اس سرزمین کے تمام ٹیکس دہندگان اور معزز شہریوں کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں