عمران خان اپنی انا کی وجہ سے گرفتاری کے نزدیک پہنچ گئے، بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2023
بلاول بھٹو نے کہا کہ معاشی بحران کا نچلے طبقے پر سب سے زیادہ بوجھ ہے — فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے کہا کہ معاشی بحران کا نچلے طبقے پر سب سے زیادہ بوجھ ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنی انا کی وجہ سے گرفتاری کے نزدیک پہنچ گئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اہم ہیں اس لیے وہ عدالت نہیں جائیں گے۔

امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کو ایک بدترین بحران کا سامنا ہے، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم اور سیاسی پولرائزیشن میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ سیاسی جماعتیں یا سیاسی اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ بیٹھ کر آپس میں مسائل پر بات کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے، یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہم معاشی بحران کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد حملوں کی بڑھتی ہوئی تعدد کے نتیجے میں ملک کو سیکورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی کے اثرات کا بھی سامنا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی وجہ سے پاکستان میں جاری بدامنی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ملک بیک وقت انتشار اور بحرانوں سے نمٹ رہا ہے لیکن عمران خان کا خیال ہے کہ ملک کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا اور اب وہ نظام سے فرار اختیار کرنا چاہ رہے ہیں، بات یہ نہیں ہے کہ میں عمران خان کو گرفتار ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں، میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ میرے ملک یا کسی بھی ملک میں کوئی بھی سیاست دان سیاسی وجوہات کی بنا پر جیل میں جائے، جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو وہ اپنی انا کی وجہ سے گرفتاری کے نزدیک پہنچ گئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اہم ہیں اس لیے وہ عدالت نہیں جائیں گے‘۔

بلاول بھٹو نے عمران خان کے فیصلوں کو پاکستان میں عدالتی نظام، قانون کی حکمرانی اور آئین کے ساتھ مذاق قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان مسلسل قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، انہوں نے خود کو بچانے کے لیے اپنے کارکنوں کو پولیس کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، پولیس کا انتشار کا کوئی ارادہ نہیں تھا، جیل جانے والے سیاستدانوں سے پاکستان کی سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ایسی صورتحال میں پھنس گئے ہیں جہاں سیاسی افراتفری سڑکوں پر جاری ہے، یہ چیز حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا رہی ہے اور پاکستانیوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں‘۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان طویل عرصے تک براہ راست فوجی آمریت کے زیر تسلط رہا ہے، جب میری والدہ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں تو غیر جمہوری حکمرانی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کو یہ پسند نہیں آیا، لہذا انہوں نے عمران خان کی حمایت کی اور انہیں اقتدار میں لے آئے، اب یہ تجربہ نہ صرف ان کے گلے پڑ گیا ہے بلکہ ملک کے لیے بھی اس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں‘۔

’آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے‘

سیاسی عدم استحکام کے پاکستان کی معیشت پر اثرات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پچھلی حکومت نے کیا تھا، جس نے بعد ازاں اس معاہدے کی خلاف ورزی بھی کر ڈالی، اس خلاف ورزی نے پاکستان کو انتہائی نازک معاشی صورتحال میں دھکیل دیا ہے، ہمارے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ایک ایسے بدترین طوفان کا سامنا ہے جس میں کچھ مسائل ہمارے اپنی تخلیق کردہ ہیں لیکن کچھ مسائل سیلاب اور دیگر قدرتی آفات جیسے بھی ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں اس بات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے مگر اس وقت ایسا نہیں ہورہا‘۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’معاشی بحران کا نچلے طبقے پر سب سے زیادہ بوجھ ہے لیکن ہمیں اس بارے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی معیشت کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس کے لیے مقامی سطح پر کیا فیصلے لیتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اور پاکستان کے لیے مل کر کام کرنا اور مستقبل کی حکمت عملی بنانا بہت ضروری ہے، میں اپنے امریکی ہم منصب سیکریٹری انٹونی بلنکن کے ساتھ اسی کوشش میں مصروف عمل ہوں۔

وزیر خارجہ نے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان، افغانستان کا پڑوسی ہونے کے ناطے سفارتی طور پر ان کو تسلیم نہیں کرتا لیکن پھر بھی پاکستان اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے جو اس کے بارڈر سے جڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان ایک حقیقت ہے اور دنیا کو اس موضوع پر سنجیدہ ہونا چاہیے، ہم نہ صرف خود کو بلکہ عالمی برادری پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ مصروف عمل ہوں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں