عالمی بینک گروپ اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 2023 موسم بہار کے اجلاس پیر کو امریکی دارالحکومت میں شروع ہوں گے تاکہ عالمی معیشت پر ’بہت زیادہ بھاری غیر یقینی صورتحال اور خطرات‘ پر غور کیا جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہیڈکوارٹر میں 10-16 اپریل تک ہونے والے اجلاسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی، جس سے دنیا بھر میں زندگیوں اور معاش کو خطرہ لاحق ہے۔

میٹنگز میں دنیا بھر سے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنر آتے ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی رہنماؤں کے ساتھ اپنے رابطوں کی تجدید کے موقع کو استعمال کرتے ہیں، ان میں سے کچھ امریکی محکمہ خزانہ اور محکمہ خارجہ کے حکام کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔

سیکریٹری خزانہ و اقتصادی امور اور اسٹیٹ بینک کے گورنر اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے کیونکہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے امریکا نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک سرکاری بیان میں ان مسائل پر روشنی ڈالی گئی جن پر ان اجلاسوں میں تبادلہ خیال کیا جائے گا اور نوٹ کیا گیا کہ ’سخت مہنگائی، زندگی گزارنے کی لاگت کا بحران اور سست ترقی کے اثرات‘ غریب اور سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ریکارڈ بلند قرضوں نے ترقی پذیر ممالک کو روک رکھا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دنیا بھر میں زندگیوں اور معاش کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘

ماہرین نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر دنیا کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کریں۔

اقوام متحدہ کی فاؤنڈیشن کی سائٹ پر ایک تصویر سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں گزشتہ سال کے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (موسمیاتی تبدیلی) کی تباہی کے خاتمے پر کمیونٹیوں کی مدد کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار تیار کریں گے۔

تصویر کے نیچے کیپشن میں کہا گیا کہ ’بہت سی جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں وگ اپنے گھروں سے محروم ہوئے جبکہ ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا۔‘

سیلاب کے فوراً بعد جاری ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کو اپنی معیشت کو محفوظ بنانے اور غربت میں کمی کے لیے موسمیاتی لچک میں نمایاں سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں