ہائیکورٹ نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو نااہل قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2023
سردار تنویر الیاس کو آج سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا تاہم وہ وزیراعظم ہاؤس روانہ ہوگئے—فوٹو: طارق نقاش
سردار تنویر الیاس کو آج سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا تاہم وہ وزیراعظم ہاؤس روانہ ہوگئے—فوٹو: طارق نقاش
سردار تنویر الیاس کو آج سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا تاہم وہ وزیراعظم ہاؤس روانہ ہوگئے—فوٹو: ڈان نیوز
سردار تنویر الیاس کو آج سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا تاہم وہ وزیراعظم ہاؤس روانہ ہوگئے—فوٹو: ڈان نیوز

آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کے الزامات پر اسمبلی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا۔

فیصلے کا اعلان بینچ کی جانب سے کیا گیا جسے جسٹس خالد رشید نے عدالت میں پڑھ کر سنایا، وزیراعظم کو عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی۔

فل کورٹ بینچ کے فیصلے کے بعد سردار تنویر الیاس، وزیر اعظم آزاد کشمیر کے عہدے سے فارغ ہوگئے ہیں اور قانون ساز اسمبلی کو نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرنا ہو گا، تاہم سردار تنویر الیاس کو فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آزاد کشمیر میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن آزاد کشمیر نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تنویر الیاس کو آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی نشست سے ڈی نوٹیفائی کر دیا۔

واضح رہے کہ پیر کو آزاد جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ نے تنویر الیاس کو ’عوامی جلسوں میں اپنی تقریروں میں اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں تضحیک آمیز ریمارکس‘ کے حوالے سے اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے اور آج (منگل کو) انہیں عدالت طلب کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران الیاس تنویر نے بالواسطہ طور پر عدلیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ حکومت کے کام کو متاثر کر رہی ہے اور حکم امتناع کے ذریعے ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کی جارہی ہے۔

انہوں نے خاص طور پر 15 ملین ڈالر کے سعودی فنڈز سے چلنے والے تعلیمی شعبے کے منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے کیونکہ عدالت نے اس پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا، اسی طرح، انہوں نے ’اربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث تمباکو فیکٹریوں کو عدالتوں کی طرف سے کھولنے پر بھی سخت موقف اپنایا تھا‘۔

آج کی سماعت میں عدالت نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے تین ویڈیو کلپس چلائے جس میں ہفتے کو ان کی تقریر کا کلپ بھی شامل تھا اور پوچھا کہ کیا وہ الزامات کا سامنا کریں گے۔

سردار تنویر الیاس نے نفی میں جواب دیا اور عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی، انہوں نے کہا کہ میں خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔

تاہم، جسٹس خالد رشید نے سوال اٹھایا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تنویر الیاس مستقبل میں ایسا نہیں کریں گے۔

عدالت نے وزیراعظم آزاد کشمیر کی معافی کی درخواست کو مسترد کردیا اور الیاس تنویر کو عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی۔

فیصلہ سننے کے بعد سردار تنویر الیاس سپریم کورٹ آزاد کشمیر میں پیش ہوئے اور وہاں بھی اپنے بیانات پر معافی کی درخواست کی تاہم سپریم کورٹ نے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے سردار تنویر الیاس کی نااہلی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’آزاد کشمیر کا وزیر اعظم ہو یا پاکستان کا، عدالتی فیصلوں کا احترام ضروری ہے، عدالتی نظام کو تباہ کر کے ملک نہیں چل سکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم آزاد کشمیر عدالت سے معافی مانگیں، امید ہے انہیں سپریم کورٹ سے ریلیف ملے گا، وزیر اعظم پاکستان اس فیصلے سے سبق حاصل کریں گے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدالتوں نے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو عوامی جلسوں میں اپنی تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کے حوالے سے وضاحت کے لیے الگ الگ نوٹس بھیجے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اُن کے پرنسپل سیکریٹری کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس میں سردار تنویر الیاس کو آج مظفرآباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ طور پر پیش ہونے کی ہدایت دی گئی تھی۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ چند ماہ سے وزیراعظم عوامی جلسوں اور تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، انہوں نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو دھمکی دیتے ہوئے انتہائی تضحیک آمیز اور ناشائستہ زبان استعمال کی ہے۔

ہائی کورٹ کے نوٹس کا متن بھی لگ بھگ ان ہی مشاہدات پر مبنی تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم تنویر الیاس نے براہ راست اعلیٰ عدلیہ کو دھمکی دی ہے، ایک جلسہ عام میں ان کی تقریر کی زبان انتہائی تضحیک آمیز، نامناسب اور ناشائستہ الفاظ پر مشتمل ہے۔

نوٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ سردار تنویر الیاس کا نہ صرف تازہ ترین بیان بلکہ گزشتہ کئی مہینوں کا ٹریک ریکارڈ بھی قابل اعتراض، غیر موزوں اور نامناسب بیانات سے بھرپور ہے۔

خیال رہے کہ 8 اپریل کو اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران سردار تنویر الیاس نے بالواسطہ طور پر عدلیہ پر الزام عائد کیا تھا کہ عدلیہ ان کی حکومت کے امور کو متاثر کر رہی ہے اور حکم امتناع کے ذریعے وزیراعظم کے دائرہ کار میں مداخلت کر رہی ہے۔

ان نوٹسز کے حوالے سے اسلام آباد میں کچھ صحافیوں نے سردار تنویر الیاس سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے صرف اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ اسٹے آرڈرز عوامی افادیت کے منصوبوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، یہ بات عدالتوں کی توہین کے مترادف نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں