پی ٹی آئی کی بائیڈن انتظامیہ کی حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2023
عمران خان کا ایک مہینے میں 4 امریکی قانون سازوں سے رابطہ ہوا ہے—فائل/فوٹو: ڈان
عمران خان کا ایک مہینے میں 4 امریکی قانون سازوں سے رابطہ ہوا ہے—فائل/فوٹو: ڈان

سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں امریکا کے 4 قانون سازوں سے بات کی ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے مطالبے کی حمایت کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔

عمران خان نے جن چار امریکی قانون سازوں سے رابطہ کیا ان میں ٹیڈ لیو، ایرک سوالویل، بریڈ شرمین اور مائیک لیون شامل ہیں اور چاروں ارکان کا تعلق حکمران ڈیموکریٹس سے ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے موجودہ ڈیموکریٹک انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔

ڈان کو پی ٹی آئی چیئرمین کے سمندر پار پاکستانیوں کے مشیر عاطف خان نے بتایا کہ بات چیت صرف آزادانہ اور شفاف انتخابات کی ضرورت پر ہوئی، جس سے پاکستان کو استحکام ملے گا کیونکہ صرف انتخابات سے ہی میں استحکام آسکتا ہے۔

عاطف خان نے کہا کہ پارٹی میڈیا، کانگریس اور انتظامیہ تینوں چینلز کا استعمال کر رہی ہے تاکہ اس کا پیغام پہنچا دیا جائے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی روک دی جائے، قانون کی بالادستی کی حمایت اور انتخابات کے مطالبے کے لیے حمایت حاصل کی جائے۔

وائٹ ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی کی حالیہ ریلی میں بھی رہنماؤں نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا تھا کہ وہ انتہائی غیرمقبول حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے، جس کے پاس پاکستان میں حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔

مہم سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بے تاب ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ماضی قریب میں ہونے والی تخلیاں بھلا دے کیونکہ اپریل 2022 میں حکومت سے بے دخلی کے بعد عمران خان اور اس کی جماعت نے امریکا مخالف پلیٹ فارم سے اپنی مہم شروع کی تھی اور واشنگٹن پر ان کی حکومت گرانے کا الزام عائد کیا تھا۔

’امریکیوں کی حمایت حاصل کرنے کا مشن‘

امریکا میں پی ٹی آئی عہدیداروں نے بائیڈن انتظامیہ سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لیے دو لابسٹس کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔

اس حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ واشنگٹن کو قائل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ تو ان کی جماعت اور نہ ہی ان کے پارٹی قائد امریکا مخالف ہیں اور اگر عمران خان حکومت میں واپس آئے تو وہ پاک-امریکا تعلقات بہتر بنانے کے لیے کام کریں گے۔

امریکیوں کی حمایت کے لیے بنیادی کردار ادا کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی فزیشن ڈاکٹر آصف محمود نے کہا کہ جب تک آزادانہ اور شفاف انتخابات نہیں ہوتے اور عوام کے منتخب کردہ لوگوں کو حکومت منتقل نہیں ہوتی ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

ڈاکٹر آصف محمود نے عمران خان اور امریکی قانون سازوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں کے علاوہ گزشتہ ماہ کیلیفورنیا سے قانون سازوں کا ایک وفد پاکستان لے گئے ہیں جہاں انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی تھی۔

پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر کے کانگریس رکن بریڈشرمین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، جنہوں نے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی خلاف وزریوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے انٹونی بلنکن سے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کی پالیسی انسانی حقوق سے جوڑ دیں اور تمام امریکی سفارتی حلقے پاکستانی حکام پر زور دیں کہ وہ مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کریں اور ذمہ داروں کا احتساب کریں۔

بریڈ شرمین نے خط میں لکھا کہ میں حکام پر زور دیتا ہوں کہ وہ یقینی بنائیں کہ سیاسی رہنما یا شہری جو احتجاج کرنا چاہتے ہیں ان پر جمہوریت مخالف الزامات عائد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔

امریکی رکن کانگریس نے کہا تھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کئی مقدمات ہیں، جس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمراں کے خلاف مقدمات، میڈیا پر ان کی تقاریر پر پابندی، مظاہرین کی گرفتاریاں، پی ٹی آئی رہنما شہباز گل، اور صحافی جمیل فاروقی پر مبینہ تشدد اور پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور کی گرفتاری شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں