بھارت: مسلم سیاستدان دورانِ حراست ٹی وی کیمروں کے سامنے بھائی سمیت قتل

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2023
واقعہ کے ردعمل میں اپوزیشن جماعتوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا—فوٹو: اے این آئی
واقعہ کے ردعمل میں اپوزیشن جماعتوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا—فوٹو: اے این آئی

بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر پریاگ راج میں سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو دن دیہاڑے ٹی وی کیمروں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔

خبررساں ادرے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جس وقت یہ قتل ہوا اس وقت پولیس عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو میڈیکل چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جا رہی تھی اور وہ صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔

61 سالہ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف اغوا کے ایک کیس میں 2019 سے گرفتار تھے۔

پولیس اہلکار پرشانت کمار نے بتایا کہ ’ابتدائی معلومات کے مطابق صحافیوں کے روپ میں 3 افراد ان کے قریب پہنچے اور فائرنگ کر دی، حملہ آوروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے‘۔

ٹی وی کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں کی جانب سے فائرنگ کے بعد ہندو انتہا پسندی پر مبنی نعرے بازی کی گئی۔

دونوں متاثرین کا تعلق بھارت کی مسلم اقلیت سے تھا تاہم پولیس نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا کہ آیا ان کے مذہبی بنیادوں پر قتل کی تحقیقات کی جارہی ہے یا نہیں۔

دونوں بھائی بھارت کے انڈرورلڈ گروہوں کے ساتھ ملوث تھے، ان کو مبینہ طور پر 100 سے زیادہ مختلف مقدمات کا سامنا تھا۔

ان دونوں کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا اور اس وقت انہیں پولیس اہلکاروں نے گھیر رکھا تھا۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آوروں میں سے ایک کے پاس کیمرہ اور دوسرے کے پاس ٹیلی ویژن چینل کا لوگو والا مائیک بھی تھا۔

کئی روز قبل اتر پردیش میں پولیس نے بتایا تھا کہ انہوں نے عتیق احمد کے 19 سالہ بیٹے اور اس کے ساتھی کو فائرنگ کے تبادلے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، پولیس کے بقول وہ دونوں قتل کے مقدمہ میں مطلوب تھے۔

حالیہ برسوں میں اس نوعیت کے کئی ’پولیس مقابلوں‘ کے دوران اترپردیش میں سیکڑوں ملزمان مارے جاچکے ہیں، اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان مقابلوں کے ذریعے اکثر ماورائے عدالت سزائے موت دی جاتی ہے۔

عتیق احمد کو قتل اور حملے کے الزامات کا سامنا تھا، انہوں نے گزشتہ ماہ بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ پولیس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔

ان کے قتل کے بعد اترپردیش میں 4 سے زیادہ لوگوں کے مجمع پر پابندی عائد کردی گئی ہے جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔

واقعہ کے ردعمل میں اپوزیشن جماعتوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور بی جے پی پر خوف کے بل بوتے پر حکومت کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

ملک بھر میں تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں سیاست دانوں کے خلاف فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے ایک بڑی اکثریت کا تعلق اتر پردیش سے ہے، ’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘ کے مطابق ان میں وزیراعلیٰ اترپردیش سمیت ریاست کے تقریباً نصف حکومتی وزرا بھی شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں