پاکستانی اداکارہ اور پروڈیوسر مومل شیخ کا کہنا ہے کہ آج میں جس مقام پر ہوں اس میں والد یا فیملی میں سے کسی کا کوئی کردار نہیں ہے، خود محنت کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے۔

خیال رہے کہ فلم ہو یا ڈراما انڈسٹری آئے روز اقربا پروری کی خبریں گردش کرتی ہیں کہ سینئر اداکار کے بیٹے کو بغیر کسی محنت کے ڈرامے میں مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کرلیا گیا، جس پر شائقین سمیت شوبز انڈسٹری کے اداکار بھی انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

واضح رہے کہ ’نیپوٹزم‘ کی تشریح کیمرج یونیورسٹی کی لغت کے مطابق کچھ یوں ہے کہ ’کوئی ایسی حرکت یا سرگرمی، جس میں اپنی طاقت کا ناجائز استعمال یا خاندانی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کوئی فائدہ حاصل کیا جائے‘۔

اردو زبان میں اقربا پروری سے مراد ’اپنوں کو نوازنا ہے‘ یا ’ایسے افراد کو فائدہ پہنچانا جن سے آپ کا کسی بھی طرح سے کوئی تعلق ہو‘۔

حال ہی میں مومل شیخ اور اداکار و گلوکار جنید خان نے بھی ندا یاسر کے پروگرام میں شرکت کی۔

مومل شیخ کا تعلق شوبز کے ایک ممتاز گھرانے سے ہے، ان کے والد جاوید شیخ شوبز انڈسٹری کا بہت بڑا نام ہیں جبکہ بھائی شہزاد شیخ بھی نامور اداکار میں جانے جاتے ہیں، اس کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد بھی اسی شعبے سے منسلک ہیں۔

مومل شیخ اور ان کے بھائی کو بھی اکثر اقربا پروری کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم ہر بار انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے۔

ندا یاسر کے پروگرام میں انہوں نے اس حوالے سے کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر، وہ انڈسٹری میں اپنے والد کی ساکھ اور اقربا پروری کے تاثر کی وجہ سے کام کے لیے پروڈیوسرز سے رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، تاہم، آخرکار انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنا سفر خود طے کرنا ہے۔

مومل نے بتایا کہ اداکار کو بنانے والے بھی عوام ہیں اور گرانے والے بھی عوام ہیں، عوام تعریف کرے گی تو ہمیں کام ملے گا ورنہ نہیں ملے گا، اپنے والد کی ہدایت کاری میں کبھی کام نہیں کیا۔

جس پر جنید خان نے کہا کہ اداکار کا بیٹا یا بیٹی کو اس لیے کاسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ عوام ڈیمانڈ کررہی ہوتی ہے، شروع کے پروجیکٹ میں پروڈیوسر اداکار کا کام دیکھتے ہیں لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ مسلسل ڈراموں میں کاسٹ ہورہا ہے تو یہ اقربا پروری (نیپو ٹزم) نہیں ہے۔

مومل شیخ نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بتایا کہ اداکاری کے شعبے میں قدم رکھنے کے لیے شروع میں بہت محنت کرنی پڑی ، بہت سال گھر بیٹھنا پڑا، ایسا وقت بھی آیا کہ کام بالکل نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خاندان میں تقریباً سبھی لوگ شوبز انڈسٹری میں ہیں، اپنے آپ کو ان کے سامنے منوانا اور قائم رہنا بہت بڑی بات تھی، ان باتوں کا میرے اوپر پریشر تھا۔

گھر میں جب سب لوگ مل کر بیٹھتے تھے اور ڈرامے کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی تو مجھے اس گفتگو کا حصہ نہیں بنایا جاتا تھا، وہ کہتے تھے کہ ’مجھے کیا پتہ، اس کو ہٹاؤ‘۔

میں ان کی گفتگو میں زبردستی حصہ بنتی تھی اور کہتی تھی کہ ایک دن میں بھی کرکے دکھاؤں گی’۔

انہوں نے بتایا کہ مومل کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے ڈرامے کے لیے 3 آڈیشن دیے تھے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ڈیڑھ سال تک میرے پاس کوئی ڈرامہ نہیں تھا، پروڈکشن ہاؤس اور پروڈیوسر سے خود بات کرنی پڑتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ آج میں جس مقام پر ہوں اس میں والد یا فیملی میں سے کسی کا کوئی کردار نہیں ہے، خود محنت کرکے اس مقام تک پہنچی ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں