قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2023
قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا—فوٹو:ڈان نیوز
قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا—فوٹو:ڈان نیوز
قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا—فوٹو: ڈان نیوز
قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا—فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی نے پنجاب میں انتخابات سے متعلق 21 ارب روپے جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے ضمنی گرانٹ منظور کرنے کی تحریک مسترد کر دی۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت جاری قومی اسمبلی اجلاس میں قائمہ کمیٹی خزانہ کی رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ قیصر احمد شیخ نے پیش کی۔

اجلاس کے دوران قومی اسمبلی نے پنجاب میں انتخابات کےلیے فنڈز کی فراہمی کے معاملے پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ منظور کرلی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے رپورٹ منظور کرنے کی تحریک پیش کی تھی جس میں قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر فنڈز جاری نہ کرنے کی سفارش کی تھی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاسوں کے دوران اس ہاؤس نے ایک قرارداد منظور کی جس میں سپریم کورٹ کے دو صوبوں کے انتخابات کے حوالے سے جاری فیصلوں پر متفقہ قراردادیں منظور کیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سو موٹو نوٹس سے شروع ہونے والے مقدمے پر نو رکنی بینچ بنایا گیا جن میں سے 2 جج صاحبان نے خود کو کیس سے الگ کیا پھر سات رکنی بینچ بنا، جن میں نے 4 ججز نے یہ پیٹیشز خارج کی تھیں کہ یہ از خود نوٹس کے کیسز نہیں ہیں، یہ کیسز صوبائی ہائی کورٹس میں چل رہے ہیںِ، اس کے فیصلے وہاں پر ہونے چاہییں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد 3 ججز کے فیصلے کو آرڈر آف دی کورٹ بنا کر جاری کیا گیا، اس کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان نے فریقین کو سننے کے بعد آئینی دفعات کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن اکتوبر میں کرانے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان معاشی حالات میں کسی ایک شخص کی انا کے لیے انتخابات کا بار بار ہونا اس ملک کے مفاد میں نہیں ہیں، اس ہاؤس نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ایک وقت میں انتخابات ہوں اور مطالبہ کیا کہ تین ججز کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس تناظر میں وفاقی حکومت نے جو سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ الیکشن کمیشن کو پیسے جاری کیے جائیں، ایک بل آپ کے سامنے پیش کیا کہ اگر ان فنڈز کو چارجڈ ایکسپنڈیچر مان لیا جائے اگر یہ ایوان اجازت دے تو ہم اس کو چارجڈ ایکسپنڈیچر تصور کریں لیکن اس ایوان نے اس بل کو مسترد کردیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گزشتہ دنوں دوبارہ ان چیمبر سماعت کی گئی جس میں اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی گئی کہ وزارت خزانہ کی اجازت کے ساتھ فیڈرول کنسولیٹیڈ فنڈز میں سے 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو منتقل کردیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل بڑے واضح ہیں کہ فیڈرل کنسولیٹڈ فنڈز میں سے چارجڈ ایکسپنڈیچر کے علاوہ کوئی بھی رقم آپ نے نکالنی ہے تو پھر یہ ایوان اس کی اجازت دے گا، سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی تھا کہ آپ بعدمیں اس کی اپروول لیجیئےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج قائمہ کمیٹی نے محکمہ فنانس کو یہ حکم دیا کہ وہ یہ معاملہ کابینہ میں لے جائیں، کابینہ نے اس معاملے پر غور کیا جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مناسب متعلقہ فورم جسے فیڈرل کنسولیٹڈ فنڈز کے اجرا کا اختیار ہے وہ یہ ایوان ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ اب ایوان میں 21 ارب روپے جاری کرنے سے متعلق جو بل، جو موشن آئے گی، ایوان اس پر اپنی رائے دینی ہے کہ وہ اس خرچے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس رپورٹ کا پس منظر ہے، اس کی روشنی میں ہی کابینہ نے اس کو ایوان میں بھیجا ہے، جس کے بعد اسییکر قومی اسمبلی نے موشن ایوان میں پیش کی جس کے بعد ایوان نے اکثریت کے ساتھ اس موشن ایڈوپٹ کیا۔

اس کے بعد وزیر قانون نے 21 ارب روپے جاری کرنے کے لیے سپلمنٹری ڈیمانڈ ایوان میں پیش کی جسے قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کی ڈیمانڈ مسترد کردی۔

وزیر قانون نے اس حوالے سے ضمنی ڈیمانڈ 64 اے ایوان میں پیش کی، پاکستان تحریک انصاف نے ڈیمانڈ کی حمایت جب کہ حکومتی اراکین نے مخالفت کی تھی۔

اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اجلاس 18 اپریل بروز منگل دوپہر 12 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

اس سے قبل آج ہی وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو انتخابات کے لیے 21 ارب روپے فنڈز جاری کرنے کے حکم کا معاملہ منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھجوایا تھا جبکہ اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی فنڈز جاری کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی کو بھجوا دیا تھا۔

وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جہاں کابینہ نے الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کا معاملہ پارلیمان میں پیش کرنے کی منظوری دی تھی۔

وفاقی کابینہ نے انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے سے ایک بار پھر انکار کرتے ہوئے الیکشن فنڈز کا اجراء پارلیمان کی منظوری سے مشروط کردیا تھا۔

وفاقی کابینہ نے انتخابی اخراجات کے لیے مالیاتی بل لانے کا فیصلہ کیا تھا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ وزیر مملکت خزانہ ضمنی گرانٹ کے لیے مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کریں گی۔

وفاقی کابینہ نے مرکزی بینک کو براہ راست فنڈز جاری کرنے سے روک دیا تھا جب کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر مبنی رپورٹ قومی اسمبلی پیش کی جائیں گی۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا تھا جس کی سمری پارلیمان سے منظوری کے لیے لائی گئی تھی جو کہ پارلیمان کو ریفر کی گئی ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ فنڈز جاری کرنا اسٹیٹ بینک کا کام نہیں اور رقم جاری کرنا وزارت خزانہ اور قومی اسمبلی کا استحقاق ہے اور عدالت نے بھی یہی کہا تھا۔

سپریم کورٹ کا فنڈز جاری کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے 14 اپٌریل کو چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ کی سماعت کے بعد اسٹیٹ بینک کو انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

سماعت میں وزارت خزانہ کے ا‏سپیشل سیکریٹری اویس منظور سمرا، ایڈیشنل سیکریٹری عامر محمود ، ایڈیشنل سیکریٹری تنویر بٹ کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی قائم مقام گورنر سیما کامل پیش ہوئی تھیں اور وفاقی حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل نے منصور عثمان اعوان نے کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ان چیمبر سماعت کا نو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا اور اس میں کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت کے مختلف اکاؤنٹس میں ایک کھرب چالیس ارب سے زائد فنڈز موجود ہیں اور 21 ارب روپے پیر 17 اپریل تک فراہم کیے جائیں گے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک اور وزرات خزانہ 18 اپریل تک فنڈز فراہمی کے حکم پر عمل درآمد رپورٹ پیش کریں، وزارت خزانہ اکاؤنٹنٹ جنرل کی تصدیقی رپورٹ اور الیکشن کمیشن 18 اپریل کو 21 ارب روپے کے فنڈز کی وصولی کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرائیں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت یہ نہیں سمجھتی کہ حکومت کو آئینی طور پر 21 ارب روپے فنڈز کے اجرا میں کوئی رکاوٹ یا مشکل ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت کا حکم وفاقی حکومت کے پارلیمنٹ سے فنڈز کے اجرا کی فوری منظوری کے لیے کافی ہے اور وفاقی حکومت آرٹیکل 84 کے تحت پارلیمنٹ سے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز جاری کرنے کی منظوری لے۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز سے انتخابات کے سلسلے میں 21 ارب روپے جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ سے رابطہ کرے گا اور عدالتی حکم پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ، اکاونٹنٹ جنرل اور الیکشن کمیشن مل کر کام کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں