سابق وزیر انسانی حقوق و رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما شیریں مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی حکومت میں ان کے سمیت کابینہ کے کچھ اراکین نے پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) آرڈیننس 2022 پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں شیریں مزاری نے اپنی بیٹی ایمان مزاری کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی کی کابینہ میں مجھ سمیت کئی اراکین نے بھی آرڈیننس کی مخالفت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پیکا قانون کے خلاف اعتراضات تحریری طور پر بھیجے تھے، میں نے یہ کہا تھا کہ یہ درست قانون نہیں ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ میں نے واضح کیا تھا کہ پیکا قانون کل ہمارے خلاف استعمال ہوگا، یہ قانون اس وقت موجود نہیں ہے لیکن پھر بھی مقدمات درج ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس دن یہ قانون ختم ہوا اسی دن عمران خان اور علی امین گنڈاپور کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج ہوئے۔

انہوں نے کہا مسنگ پرسنز کیسز کے حوالے سے ہم نے ایمان مزاری کی معاونت سے بل ڈرافٹ کیا تھا، تاہم ہماری اتحادی حکومت تھی اس لیے ہمیں کافی مشکلات درپیش تھیں، ہمارے وزیر قانون کا تعلق اتحادی جماعت سے تھا ااور ان کی وابستگیوں سے سب واقف ہیں اس لیے ہمیں جبری گمشدگیوں کے بل میں ڈھائی برس لگ گئے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ان تجربات سے ہم نے کئی چیزیں سیکھی بھی ہیں، اس لیے عمران خان کہتے ہیں کہ اگر دو تہائی اکثریت نہ ہو تو حکومت بنانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جو ہماری کمی بیشیاں تھیں ہم انہیں نہیں دہرائیں گے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایمان مزاری نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی تھیں، یہ سلسلہ آج موجودہ دورِ حکومت میں بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ میرے اور میری والدہ کے درمیان پی ٹی آئی سے متعلق اختلافات ہیں، میں پی ٹی آئی کی حمایت نہیں کرتی لیکن اپنی اپنی رائے میرا اور میری والدہ کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان پایا جاتا ہے، مسلم (ن) اور پیپلزپارٹی میں تو طویل عرصے تک انٹرا پارٹی الیکشن بھی نہیں ہوئے، اب یہ چیز پی ٹی آئی میں بھی نظر آنے لگی ہے۔

ایمان مزاری نے کہا کہ اس ملک میں ہمیشہ جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ان جماعتوں کی غلطی نہیں بلکہ ان اداروں کی غلطی ہے جس نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا ہے۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ پہلی بار پیکا قانون 2016 میں قومی اسمبلی نے اُس وقت منظور کیا تھا جب مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، بعدازاں پی ٹی آئی دورِ حکومت میں صدر عارف علوی نے آرڈیننس جاری کرکے اسے مزید سخت بنا دیا تھا۔

20 فروری 2022 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کیا تھا۔

پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی تھی، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی تھی۔

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ میں جمع کرائے۔

پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ٹیلی ویژن پر کسی بھی ’فرد‘ کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جاتی۔

جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا۔

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمہ نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی، ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو تفویض کیا گیا تھا۔

مذکورہ آرڈیننس کو ’امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022‘ کا نام دیا گیا تھا جو فوری طور پر نافذالعمل کردیا گیا تھا۔

اس حوالے سے اس وقت کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ چند صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔

قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور ایف آئی اے کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔

نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی تھی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا تھا۔

بعدازاں 8 اپریل 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پیکا آرڈیننس اور اس کے نفاذ کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا اور اسے ختم کردیا تھا۔


خبر میں مزید تفصیلات شامل کی جارہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں