اعلیٰ عہدیداروں کی ’رشتہ دار خواتین‘ کی آڈیو لیک سے بحث چھڑ گئی

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2023
سینیئر وکیل نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں —تصویر: ٹوئٹر
سینیئر وکیل نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں —تصویر: ٹوئٹر

کئی روز کی خاموشی کے بعد ایک نئی لیک ہونے والی گفتگو نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک طوفان برپا کر دیا لیکن اس بار اس میں شامل لوگ اہم سیاسی کھلاڑی نہیں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تازہ ترین لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر دو خواتین گفتگو کر رہی ہیں جن میں سے ایک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین حاضر سروس جج کی ساس جب کہ دوسری پی ٹی آئی کے قانونی مشیروں میں سے ایک خواجہ طارق رحیم کی شریک حیات ہیں۔

اگرچہ زیر بحث خواتین کی شناخت کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جاسکی لیکن اس کلپ پر پوری سیاسی تقسیم سے سخت ردعمل سامنے آیا اور ساتھ ہی اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس گفتگو میں دونوں خواتین مبینہ طور پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس سے متعلق عدالتی معاملے پر تبادلۂ خیال کر رہی تھیں۔

چیف جسٹس، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔

لیک ہونے والی گفتگو میں دونوں خواتین کو چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار، اعلیٰ جج کے اختیارات کو کنٹرول کرنے والے قانون اور قبل از وقت انتخابات اور مارشل لا کے امکان پر گفتگو کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

وہ آواز جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی ہے یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ لاکھوں لوگ ان کی حمایت اور دعا کر رہے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ ماہ مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کے جلسے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں لاہور کے جلسے میں موجود تھی اور لاکھوں لوگ وہاں موجود تھے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’بالکل اسی طرح ہر شہر میں لاکھوں لوگ ہیں اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے لوگ آپ کے لیے دعائیں کر رہے ہیں‘۔

جواب میں مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی ساس نے حکومت پر تنقید کی، جو ان کے مطابق چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو استعمال کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھا رہی ہے۔

آواز کہتی ہے کہ ’اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنے کا اختیار کیوں ملا اور یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ از خود (نوٹس) کیوں لیا گیا، یہ ان کا حق تھا‘۔

اس کے جواب میں دوسری آواز چیف جسٹس کے ناقدین کو ’اس ملک کے غدار‘ قرار دیتی ہے۔

دونوں خواتین نے قبل از وقت انتخابات پر بھی تبادلۂ خیال کیا، جن میں سے ایک نے مبینہ طور پر ’جلد سے جلد‘ انتخابات کی خواہش کا اظہار کیا۔

جس کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما کی اہلیہ مبینہ طور پر کہتی ہیں کہ ’اگر الیکشن نہ ہوئے تو مارشل لا لگ جائے گا، وہ (موجودہ حکومت) نہیں رہ سکتے‘۔

جج کے مبینہ رشتہ دار نے فوج کی مداخلت میں ہچکچاہٹ کے حوالے سے جواب دیا کہ ’وہ مارشل لا نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘۔

اس پر پی ٹی آئی رہنما کی اہلیہ کی آواز نے کلپ ختم ہونے سے پہلے کہا کہ ’وہ مکمل طور پر تیار ہیں‘۔

’قابل افسوس اور سنگین جرم‘

لیک ہونے والی گفتگو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سینئر وکیل شعیب شاہین نے اسے ’قابل افسوس‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجی گفتگو کو ریکارڈ کرنا ’سنگین جرم‘ ہے۔

انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور ریاست سے جواب طلب کریں۔

ساتھ ہی انہوں نے غیر تصدیق شدہ آڈیو نشر کرنے پر میڈیا کی بھی سرزنش کی۔

شعیب شاہین نے کہا کہ ’بحث کے لیے اگر ہم آڈیو کو حقیقی مان لیں، تب بھی کوئی بھی (سپریم کورٹ کے سینئر جج) کی جانب انگلی نہیں اٹھا سکتا‘۔

ایک اور سینئر وکیل اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر راجا انعام امین منہاس نے معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی تحقیقات کی جانی چاہیے کیونکہ یہ معمول کی آڈیو لیک نہیں ہے، بظاہر اس کا تعلق پاکستان کے حتمی فیصلہ کنندہ سے ہے اس لیے یہ ایک انتہائی حساس معاملہ بھی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ عام آدمی کی نظروں میں عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جامع تحقیقات ناگزیر ہیں اور اگر آڈیو جعلی پائی گئی تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔

انعام امین منہاس نے مزید کہا کہ ’اگر کلپ حقیقی ہے تو قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے، چیف جسٹس آئندہ چند ماہ میں ریٹائر ہونے والے ہیں اور انہیں عہدہ چھوڑنے سے پہلے اپنا نام صاف کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں