بچے کسی حد تک شرمیلے ہوتے ہیں لیکن اگر یہ شرمیلا پن بہت زیادہ بڑھ جائے تو یہ بچے کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

شرمیلا مزاج ہونے کی علامات یہ ہیں کہ ’بچہ کسی سے بات کرتے ہوئے والدین سے چمٹ جائے، یا پھر اپنا سر جھکا کر وہاں سے چلا جائے‘۔

ایسے بچوں کو دوست بنانے میں پریشانی ہوتی ہے، یہ الگ تھلگ بیٹھ کر دوسرے بچوں کو کھیلتے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور کسی قسم کی نئی سرگرمی میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق سوسائٹی فار ریسرچ ان چائلڈ ڈیولپمنٹ کے جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت میں شرمیلا پن ہونا یا اجنبی لوگوں کے سامنے ہچکچاہٹ محسوس کرنا عام تجربہ ہے۔

اونٹاریو میں بروک یونیورسٹی کی مصنفہ کرسٹی پول کا کہنا ہے کہ شخصیت میں شرمیلا پن، جھکاؤ یا خوف اس وقت محسوس ہوتا ہے جب آپ نئے ماحول میں جاتے ہیں یا کسی مجمع میں آپ توجہ کا مرکز ہوتے ہیں’۔

تحقیق کے مطابق محققین نے شرمیلے پن کا جائزہ لینے کے لیے 7 سے 8 سال کی عمر کے 152 بچوں کا جائزہ لیا، ان بچوں سے کہا گیا کہ وہ تقریر کریں جسے فلمایا جائے گا اور ان کی تقریر دیگر بچوں کو بھی دکھائی جائے گی۔

فوٹو: آن لائن
فوٹو: آن لائن

تقریر کے دوران ماہرین نے بچوں کے رویے، ہاتھ کے اشارے، باڈی لینگویج، نظروں کی حرکت وغیرہ کا جائزہ لیا۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ تقریر کے دوران تقریباً 10 فیصد بچے تناؤ، گھبراہٹ اور شرمیلے پن کا شکار تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرمیلا پن بچوں کے مزاج کا حصہ ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ تقریباً 25 فیصد بچوں میں شرمیلا پن محسوس نہیں کیا گیا تاہم تقریر کے دوران سماجی تناؤ میں اضافہ ہوا۔

کرسٹی پول کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ اس عمر کے بچوں میں تقریر کرنے کے دوران شرم محسوس کرنا عام سی بات ہو۔

سوشل سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے پروفیسر کورالی پیریز ایڈگر نے کہا کہ اس تحقیق میں کچھ حدود تھیں، خاص طور پر یہ کہ جن بچوں کا مطالعہ کیا گیا وہ زیادہ تر سفید فام تھے اور ایک ہی سماجی اقتصادی پس منظر سےتعلق رکھتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وسیع مطالعے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں بچوں کی نشوونما میں ہماری مدد کر سکیں، اور ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ بچے وقت کے ساتھ ساتھ کتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

فوٹو: آن لائن
فوٹو: آن لائن

کیا شرمیلا ہونا بُری بات ہے؟

پروفیسر کورالی پیریز ایڈگر کا کہنا ہے کہ جولوگ شرمیلے ہوتے ہیں انہیں زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا، کئی لوگ ان لوگوں کو زیادہ پراعتماد تصور کرتے ہیں جو اجنبی لوگوں سے جلدی گھل مل جاتے ہیں یا زیادہ ملن سار ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مزاج میں شرمیلا پن ہونا غلط بات ہے۔

ہر کوئی مختلف اوقات میں شرمیلا ہوسکتا ہے اور جو لوگ بالخصوص شرمیلے ہوتے ہیں وہ اکثر خوش گوار سماجی زندگی بسر کرتے ہیں۔

تاہم کچھ باتیں دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے، پروفیسر کورالی کہتی ہیں کہ جو لوگ مسلسل شرمیلے ہوتے ہیں وہ اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ زیادہ شرمیلے ہوتے ہیں یا جب بچے اسکول میں کام کرنے، دوست بنانے اور عام سرگرمیوں (کلب اور کھیل) میں مشغول ہونے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں تو بچے کے ساتھ والدین کے لیے بھی یہ خطرے کی علامت ہے’۔

انہوں نے بتایا کہ اگر چہ شرمیلا پن مسئلہ نہیں ہے لیکن والدین کو ایسے بچوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، بچوں سے ان کی پریشانی کے حوالے سے سوال کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ بچے ابتدائی طور پر شرمیلے ہوتے ہیں تاہم عمر کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج میں شرمیلا پن کم ہوجاتا ہے۔

فوٹو: آن لائن
فوٹو: آن لائن

شرمیلے بچوں کی مدد کیسے کی جائے؟

بالٹی مور میں جانز ہاپکنز چلڈرن سینٹر میں بچوں اور نوعمروں کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ایریکا چیاپینی کا کہنا ہے کہ گھبراہٹ کی وجہ سے اگر آپ کا بچہ ایسے مواقع یا حالات کو نظرانداز کررہا ہے جو ان کے لیے اہم ہیں یا مستقبل میں ان کے لیے خوش گوار ہو سکتی ہیں تو والدین کو اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کلاس میں کسی سے بات نہ کرنا، دوست بنانے میں پریشانی کا سامنا کرنا اور ایسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہونا جن سے وہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، بچوں کے لیے مستقبل میں یہ صورتحال سنگین بھی ہوسکتی ہے۔

بچے کو شرمیلے پن کا لیبل لگانے کے بجائے بچے کے احساسات اور جذبات پر غور کریں۔

فوٹو: پیرنٹون ویب سائٹ
فوٹو: پیرنٹون ویب سائٹ

بچے جتنا زیادہ حالات کو نظر انداز کریں گے مستقبل میں اتنی زیادہ پریشانی ہوگی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے بچے کو زبردستی ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں۔

والدین کو اسی صورتحال سے آہستہ اور وقفے کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر آپ اپنے بچے کو پہلے دوسرے لوگوں سے سوال پوچھنے یا بات کرنے کے بجائے والدین اور بچے آپس میں تفصیلی بات کریں۔

بچے کو اس کے جذبات محسوس کرنے کے لیے آزادی دیں، اسے محسوس کروائیں کہ آپ اس کی مدد کریں گے۔

بچے کو اسکاؤٹنگ کیمپوں میں حصہ لینے کی اجازت دیں، اسے معاشرتی کاموں میں جذباتی طور پر حصہ لینے کی تربیت دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں