لکڑی سے برتن بنانے کا فن حکومتی توجہ کا منتظر

اپ ڈیٹ 03 مئ 2023
بخت مشر شانگلہ کے ان مٹھی بھر بڑھئیوں میں سے ایک ہیں جو لکڑی کے برتن بناتے ہیں — تصویر: لکھاری
بخت مشر شانگلہ کے ان مٹھی بھر بڑھئیوں میں سے ایک ہیں جو لکڑی کے برتن بناتے ہیں — تصویر: لکھاری

ہر صبح 46 سالہ بخت مشر خیبرپختونخوا میں شانگلہ ضلع میں لیلونئی گاؤں کے قریب واقع دورافتادہ گاؤں شیشن میں دریا کنارے موجود اپنے کارخانے جاتے ہیں۔

بخت مشر بڑھئی ہیں اور وہ گزشتہ 20 سال سے لکڑی کے برتن تیار کررہے ہیں۔ وہ یہ برتن بنانے کے لیے لکڑی کو تراشنے کے پرانے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یہ برتن پاکستان کے شہروں اور بیرونِ ملک مقیم لوگوں میں تیزی سے مقبول ہورہے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کے دیہی علاقوں میں لکڑی کے برتنوں کا استعمال ہمیشہ سے ہی عام تصور کیا جاتا ہے۔

شانگلہ کے مقامی ہمیش گل جنہوں نے لیلونئی میں بخت مشر کے عارضی کار خانے تک پہچنے میں میری رہنمائی کی، وہ کہتے ہیں کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگ لسی اور دیسی گھی بنانے کے لیے لکڑی کے برتنوں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ اسٹیل یا شیشے کے برتنوں کے مقابلے میں لکڑی کے استعمال سے صحت کو کم نقصان پہنچتا ہے۔ لکڑی سے بنے برتن دیگر دھاتوں سے بنے برتنوں کے مقابلے میں محفوظ اور پائیدار ہوتے ہیں۔ ہم انہیں کئی دہائیوں سے اپنے گھروں میں استعمال کرتے آرہے ہیں‘۔

شیشن کے پہاڑی گاؤں میں تنگ اور بل کھاتے راستوں سے گزرتے ہوئے ہمیں اونچائی سے بخت مشر کا کارخانہ نظر آیا۔ اگرچہ یہ پہلی نظر میں دکھائی دینا مشکل ہے لیکن پھر مقامی گائیڈ میاں مظہر علی نے کارخانے کی جانب اشارہ کیا تو وہ نظر آیا۔ پیدل چلنے والا پُل پار کرکے مجھے بخت مشر کھلے آسمان تلے، دریائی پتھروں کے درمیان بیٹھے ایک پیالہ تراشتے ہوئے نظر آئے۔

بخت مشر شانگلہ میں لکڑی سے برتن بنانے والے چند کاری گروں میں سے ایک ہیں جوکہ اپنی مصنوعات، مقامی علاقوں، دیگر اضلاع اور مارکیٹ میں براہِ راست فروخت کرتے ہیں۔

بخت مشر نے بتایا کہ ’میں نے یہ ہنر اپنے والد سے سالوں پہلے سیکھا تھا۔ خاندان میں میرے دو اور کزنز بڑھئی ہیں۔ تاہم میرے بچوں سمیت کوئی بھی اب اس کام کو سیکھنے میں دلچسپی نہیں لیتا کیونکہ وہ اس فن کو اہمیت نہیں دیتے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد یہ فن بھی باقی نہیں رہے گا‘۔

بخت مشر آرڈر پر لکڑی کے 22 برتنوں پر مشتمل ڈنر سیٹ، پیالے، چمچے، کھانے کی پلیٹیں، کپ، تشتری، ڈبل روٹی اور مکھن رکھنے کی پلیٹیں وغیرہ تیار کرتے ہیں۔

لکڑی کے برتن بنانے میں کئی دنوں کی مشقت لگتی ہے
لکڑی کے برتن بنانے میں کئی دنوں کی مشقت لگتی ہے

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ انہیں لکڑی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ برتن بنانے کے لیے لکڑیوں کی 3 مختلف اقسام ایسکولس انڈیکا، اخروٹ اور میلوٹس فلپینسس استعمال ہوتی ہیں لیکن یہ درخت نایاب ہیں اور زیادہ تر محفوظ جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔

بخت مشر نے کہا کہ ’لکڑیاں کاٹنے والے لوگ پہاڑوں پر واقع درختوں کو کاٹتے ہیں مگر ان تک رسائی حاصل کرنا انتہائی محنت کا کام ہے۔ سخت موسمی حالات میں بلند مقامات پر سفر کرنا، لکڑیوں کے ٹکڑے کرنا اور انہیں کاندھوں پر لاد کر نیچے لےکر آنے کے لیے 2 سے 3 دن لگتے ہیں‘۔

انہوں نے لکڑی کے برتن بنانے کے لیے لکڑی کے حصول کے عمل کی وضاحت کی کہ جنگلات سے لکڑیاں حاصل کرنے کے بعد انہیں مزید چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے جس کے بعد روزانہ 10 سے 15 ٹکڑوں کو دریا کے کنارے تراشنے کے لیے لےکر جایا جاتا ہے۔ تراشنے کے بعد برتنوں کو صفائی، سوکھانے اور پالش کرنے کے لیے دوبارہ کارخانے میں لایا جاتا ہے، جس کے بعد یہ فروخت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

شانگلہ کے محکمہ جنگلات کے سب ڈویژنل افسر زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’برتن بنانے جیسے مقاصد کے لیے لکڑی کا استعمال ممنوع نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی ان لکڑیوں کو محفوظ جنگلات سے حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہیں این او سی حاصل کرنا ہوگا اور اسے اپنی مکمل درخواست کے ساتھ محکمہِ جنگلات میں جمع کروانا ہوگا۔ مخصوص مقامات پر واقع محفوظ جنگلات، حکومت کی ملکیت میں ہیں۔ ایسے میں بغیر اجازت درختوں کی کٹائی غیرقانونی عمل ہے۔ تاہم، نجی زمینوں پر مخصوص طرح کے درختوں کی کٹائی کی کوئی ممانعت نہیں ہے‘۔

لکڑی پر کام کرنے کے لیے بخت مشر کے والد نے لکڑی کی ایک مشین تیار کی ہے جس میں 30 فٹ لمبا لکڑی کا سپل وے ہے جس کے ذریعے پانی لکڑی کی ٹربائن پر گرتا ہے۔ ٹربائن کی ایک جانب وہ ایک چھوٹے سے اسٹیل پلگ کے ساتھ برتن کو لگادیتے ہیں اور پھر وہ آلات (عموماً چھری) سے لکڑیوں کو تراشتے ہیں۔ اس مشین کو استعمال کرنے میں نہ بجلی خرچ ہوتی ہے اور نہ ہی ایندھن’۔

بخت مشر نے ڈان کو بتایا کہ ’یہ انتہائی محنت کا کام ہے لیکن مجھے یہ کام بہت پسند ہے۔ میں 3 سال قبل 22 برتنوں پر مشتمل ڈنر سیٹ 5 ہزار روپے میں فروخت کرتا تھا۔ اب مہنگائی کی وجہ سے میں نے اس کی قیمت بڑھا کر 8 ہزار روپے کردی ہے‘۔

لوگوں میں لکڑی کے برتنوں کی خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے
لوگوں میں لکڑی کے برتنوں کی خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے

انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں شانگلہ میں گھر گھر جا کر اپنے برتن بیچا کرتا تھا کیونکہ یہ میری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ 2 سالوں میں، میں نے لکڑی کے برتنوں کی خریداری کے رجحان میں اضافہ دیکھا ہے اور شانگلہ کے لوگوں نے انہیں آن لائن بھی بیچنا شروع کردیا ہے۔ چونکہ مجھے یہ علم نہیں کہ انٹرنیٹ کیسے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے چند نوجوان مجھ سے ڈنر سیٹ خریدتے ہیں اور انہیں آن لائن فروخت کرتے ہیں جس سے میرے کاروبار میں کافی آسانی ہوئی ہے‘۔

عارف احمد سوات سے تعلق رکھنے والے ایک انٹرپرینیور ہیں جو مقامی مصنوعات کی آن لائن تشہیر کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے بڑے شہروں اور بیرونِ ملک بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں مقیم لوگوں کی بڑی تعداد پاکستان کی روایتی مصنوعات خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔

عارف احمد کے مطابق سوات، شانگلہ اور مالاکنڈ ضلع کے مختلف علاقوں سے لوگ لکڑی سے بنے برتن، شال، جوتے اور دیگر نوادرات خریدتے ہیں۔ عارف احمد نے مقامی مصنوعات کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروخت کرکے طلب اور رسد کے درمیان فرق کو پُر کیا ہے۔

بخت مشر نے ڈان کو مزید بتایا کہ ’سوات، شانگلہ کے مختلف حصوں، دبئی اور سعودی عرب میں مقیم لوگ آن لائن ایجنسیوں کے ذریعے ہم سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنا آرڈر دیتے ہیں۔ میں اور میرے والد ایک ڈنر سیٹ کا آرڈر ایک ہفتے میں مکمل کرکے صارفین کو بھیجتے ہیں‘۔

گل رنگ زادا 30 سال تک کانا تحصیل کے علاقے لودھر میں لکڑی کے برتن بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’میرے کام کو اسلام آباد، پشاور اور سوات میں منعقد ہونے والے مختلف فیسٹیولز میں نمائش کے لیے بھی پیش کیا گیا ہے۔ میری مصنوعات بیرون ملک بھی فروخت ہوتی تھیں کیونکہ میں نے اسلام آباد میں آن لائن کاروباری کمپنی سے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ کمپنی سے مجھے ہر ہفتے بہت سے آرڈرز موصول ہوتے تھے‘۔

حالیہ سیلاب سے قبل گل رانگ زادا کا کاروبار عروج پر تھا۔ اگست 2022ء میں آنے والا سیلاب ان کا پورا کارخانہ اپنے ساتھ بہا لے گیا، جس میں ایک چھوٹا پاور اسٹیشن، لکڑی تراشنے کی مشین اور بھاری اور بڑی لکڑیوں کی کٹائی کا سازوسامان شامل تھا۔ یہ سب انہوں نے 2016ء کے سیلاب کے بعد خریدا تھا۔ وہ کوشش کررہے ہیں کہ ایک بار پھر اپنا کاروبار شروع کریں۔ چونکہ یہ علاقہ سیلاب سے اکثر متاثر ہوتا ہے اس لیے انہیں خدشہ ہے کہ ان کا سازوسامان پھر سیلاب کی نذر نہ ہوجائے۔

تاہم شانگلہ میں دو مختلف علاقوں میں 4 سے 6 بڑھئی کام کررہے ہیں۔ اس وقت صرف بخت مشر اور ان کے کزنز ہی شیشن، لیلونئی میں لکڑی کا کام کرتے ہیں کیونکہ گل رنگ زادا کا کارخانہ تو تباہ ہوچکا ہے۔

ان کاری گروں کو قومی اور بین الاقوامی مارکیٹس میں رسائی دینے کے لیے حکومت کو اس فن کی سرپرستی کرنا ہوگی۔ اس کے ذریعے بڑھئیوں کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں مدد ملے گی، مقامی لوگوں کو آمدنی کے ذرائع اور نئے انٹرپرینیور کو کاروباری مواقع ملیں گے۔


یہ مضمون 23 اپریل 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں