افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خواتین کے ایک گروپ نے احتجاج کرتے ہوئے غیر ملکی حکومتوں سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان خواتین کے ایک گروپ نے کابل میں احتجاج کرتے ہوئے غیر ملکی اقوام پر اگلے ہفتے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے قبل طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کرنے پر زور دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کے حقوق پر پابندیوں کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانے یا حراست میں لیا گیا جبکہ کچھ مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

تاہم خواتین کے مخصوص گروپوں نے احتجاجی اجتماعات کو جاری رکھا ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دوحہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے قبل آج تقریباً 25 خواتین نے افغان دارالحکومت کے رہائشی علاقے سے مارچ کیا جیسا کہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سربراہی اجلاس میں ملک کے لیے پائیدار راستہ نکالنے پر بات چیت کی جائے گی۔

سیکیورٹی فورسز سے بغیر کسی تصادم کے 10 منٹ تک جاری رہنے والی احتجاجی ریلی کے دوران خواتین نے نعرے لگائے کہ ’طالبان کو تسلیم کرنا، خواتین نے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

خواتین نے مارچ کے دوران دیگر نعرے بھی لگائے جن میں ’افغان عوام، طالبان کے یرغمال‘ اور ’ہم لڑیں گے، ہم مریں گے، ہم اپنا حق لیں گے‘ شامل تھے۔

واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

اس سے قبل 1996 سے 2001 تک طالبان کی سابقہ حکومت کو پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے رسمی طور پر تسلیم کیا تھا۔

تاہم سفارت کار، غیرسرکاری تنظیمیں اور امدادی ایجنسیاں اس معاملے پر شدید تقسیم کا شکار ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بین الاقوامی برادری طالبان حکام کو تسلیم کرنے کے امکانات کو روک کر خواتین کے حقوق پر پابندیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

دیگر کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں اس پر بحث کرنے سے طالبان حکومت کو قانونی حیثیت مل جاتی ہے جہاں وہ خواتین پر متعدد پابندیاں کرکے عوامی زندگی سے گریز کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی ڈپٹی جنرل سیکرٹری عامنہ محمد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ پیر کو شروع ہونے والے اجلاس میں سفیر اور ایلچی کچھ شرائط کے ساتھ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے راستوں پر غور کر سکتے ہیں۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں بات کرتے ہوئے ڈپٹی سیکرٹیر نےکہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نا کیا جائے جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ ایسا ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان واضح طور پر تسلیم ہونا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس یہی طاقت ہے۔

تاہم اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا افغانستان کے حکام کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔

اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ ’تسلیم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

احتجاج میں شامل 26 سالہ شمائل توانا ناصری نے کہا کہ افغان طالبان کو باضابطہ تسلیم کرنے کی کوئی بھی بات چیت ان کو تقویت دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم جو کہ اس جبر کا شکار ہیں، ہمارے حقوق صلب کیے گئے ہیں، اب حکومت کو تسلیم کرنے کی باتیں ہماری تشویش میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ پیر کو ہونے والی کانفرنس میں افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی آگاہ کرے گا۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ اس مشکل انتخاب کا سامنا کر رہا ہے کہ آیا 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک میں اپنے آپریشن کو برقرار رکھا جائے یا نہیں۔

سال 2021 میں اقتدار پر کنٹرول کرنے کے بعد افغان طالبان نے خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں سرکاری و نجی اداروں میں ملازمت، بغیر مرد کے باہر جانے، پارکس، ہوٹلوں، جم میں جانے پر پابندی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول پر بھی پابندی عائد کردی ہے جس کی وجہ سے انہیں عالمی برادری کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ سخت اسلامی قوانین کے تحت خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔

قبل ازیں افغانستان کے طالبان حکام نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کرنا ملک کا ’اندرونی مسئلہ‘ ہے جس کا ہر سطح پر احترام کیا جانا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں