سوڈان: جنگ بندی کے باوجود خون ریز جھڑپیں جاری، سابق وزیراعظم کا ’ڈراؤنے خواب‘ کا انتباہ

اپ ڈیٹ 30 اپريل 2023
وزارت صحت نے کہا کہ لڑائی نے دارفر ریجن سمیت سوڈان کی 18 میں سے 12 ریاستوں کو متاثر کیا ہے — فوٹو: اے ایف پی
وزارت صحت نے کہا کہ لڑائی نے دارفر ریجن سمیت سوڈان کی 18 میں سے 12 ریاستوں کو متاثر کیا ہے — فوٹو: اے ایف پی

فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد ہمدان ڈگلو کے درمیان اقتدار کی جاری کشمکش کے باعث خون ریز جھڑپوں سے متاثرہ ملک سوڈان میں بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق سوڈان کے سابق وزیر اعظم عبد اللہ حمدوک نے خبردار کیا ہے کہ اگر تنازع کو جلد حل نہ کیا گیا تو صورتحال دنیا کی بدترین خانہ جنگیوں میں سے ایک کی خوفناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔

عبد اللہ حمدوک نے نیروبی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خدا نخواستہ اگر سوڈان خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے تو صورتحال شام، یمن، لیبیا سے بھی زیادہ خوفناک ہوگی، میرے خیال میں یہ دنیا کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوگا۔

وزارت صحت نے ہفتے کے روز بتایا تھا کہ جاری جھڑپوں میں کم از کم 528 افراد ہلاک اور تقریباً 4 ہزار 600 زخمی ہوچکے جب کہ یہ اعداد و شمار کے نامکمل ہونے کا خدشہ ہے۔

قحط کا خطرہ

وزارت صحت نے کہا کہ لڑائی نے دارفر ریجن سمیت سوڈان کی 18 میں سے 12 ریاستوں کو متاثر کیا ہے۔

تشدد ایسے ملک میں مزید لاکھوں افراد کو بھوک کی لپیٹ میں لے سکتا ہے جہاں پہلے ہی آبادی کا ایک تہائی حصہ یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد کو قحط سے بچنے کے لیے فوری امداد کی ضرورت ہے۔

متحارب فریقین نے متعدد بار جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے لیکن کسی دفعہ بھی وہ کامیاب نہیں ہوسکے جب کہ افراتفری اور لاقانونیت نے 50 لاکھ آبادی کے شہر خرطوم اور دیگر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

تازہ ترین تین روزہ جنگ بندی جس کی میعاد اتوار کی آدھی رات کو ختم ہونی ہے، اس پر جمعرات کے روز امریکا، سعودی عرب، افریقی یونین اور اقوام متحدہ کی قیادت میں ثالثی کے بعد اتفاق کیا گیا۔

ایسے میں جب کہ لڑائی میں شدت آگئی ہے مخالف جرنیلوں نے میڈیا میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔

عبدالفتاح برہان نے ایک بار پھر آر ایس ایف کو ایسی ملیشیا قرار دیا جس کا مقصد سوڈان کو تباہ کرنا ہے جب کہ محمد ہمدان ڈگلو نے آرمی چیف کو غدار قرار دیا۔

سوڈان پر کئی دہائیوں تک اسلام پسند حمایت یافتہ طاقتور عمر البشیر کی حکومت رہی، عمر البشیر 1989 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے اور 2019 میں ہونے والی عوامی بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا، دو سال بعد آر ایس ایف کی حمایت سے جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں فوج نے بغاوت کر کے اقتدار سنبھال لیا۔

ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی خونریزی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے ہفتے کے روز سعودیہ عرب کے سرکاری نشریاتی ادارے ’العربیہ‘ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ جب ملک ٹوٹ رہا ہو تو اقتدار کے لیے لڑنے کا کوئی حق نہیں ہے، میری اپیل ہے کہ سوڈان میں قیام امن کے لیے افریقی قیادت کے اقدام کی حمایت کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں بھی کہا کہ اقوام متحدہ ہمسایہ ممالک میں حفاظت کے خواہاں لوگوں کی مدد کے لیے کوششوں کو تیز کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق 75 ہزار سے زیادہ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں جب کہ ہزاروں شہری چاڈ، مصر اور جنوبی سوڈان سمیت ہمسایہ ممالک میں جا چکے ہیں۔

تشدد اور خانہ بندی کے باعث غیر ملکی شہریوں اور عالمی اداروں کے عملے کا بھی بڑے پیمانے پر اخراج شروع ہوگیا، سعودی عرب نے کہا کہ اس نے تقریباً 4ہزار 880 افراد کو محفوظ مقام پر پہنچایا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں