پی ٹی آئی اگست کے وسط میں انتخابات کے انعقاد کی خواہاں

بات چیت کا اگلا دور کب منعقد ہوگا اس کے بارے میں کوئی سرکاری بیان نہیں دیا گیا —تصویر: انسٹاگرام/شاہ محمود قریشی
بات چیت کا اگلا دور کب منعقد ہوگا اس کے بارے میں کوئی سرکاری بیان نہیں دیا گیا —تصویر: انسٹاگرام/شاہ محمود قریشی

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کا جوڑ توڑ دور منگل کی رات دیر گئے کچھ اتفاق رائے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا تاہم دونوں فریقوں کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے حکومتی وفد کی قیادت کرنے والے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بتایا کہ دونوں فریقین نے نگراں سیٹ اپ کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ پر کرانے پر اتفاق کیا لیکن یہ فیصلہ کہ وہ تاریخ کیا ہوگی اسے طے ہونا ابھی باقی ہے۔

البتہ جہاں وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دونوں فریقین کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس میں مثبت پیش رفت کا دعویٰ کیا، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے پیش کردہ ’قابل عمل تجاویز‘ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔

شاہ محمود قریشی اس بات پر بضد تھے کہ سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے فیصلے، جس میں پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا تھا، پر مکمل طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین ایک پیچیدہ عمل ہے۔

ادھر پیپلز پارٹی کے یوسف گیلانی پر امید تھے کہ دونوں فریقوں نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

تاہم پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین کے مطابق دونوں فریقوں نے محض اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاسی جماعتوں کو اس راستے پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے جو عوامی مفاد میں اور آئین کے مطابق ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مذاکرات کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔

اگرچہ بات چیت کا اگلا دور کب منعقد ہوگا اس کے بارے میں کوئی سرکاری بیان نہیں دیا گیا پر ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریقوں نے نئی تجاویز کا تبادلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اب اگست کے وسط میں کہیں الیکشن چاہتی ہے۔

بات چیت کا تیسرا دور ختم ہونے سے کچھ دیر قبل یوسف رضا گیلانی اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بظاہر پارٹی قیادت سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے نئی ہدایات لینے کے لیے کمیٹی روم سے باہر آئے جہاں بات چیت ہو رہی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد پی ٹی آئی کی ٹیم بھی الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے حکومتی تجاویز پر مشاورت کے لیے باہر آئی۔

دونوں ٹیموں نے اپنی اپنی قیادت سے مشاورت کے بعد دوبارہ ملاقات کی تو انہوں نے ایک بار پھر تحریری تجاویز کا تبادلہ کیا۔

انتخابات کی تاریخ کا تعین ہے، وزیر خزانہ

مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ جس دن بھی ملک میں الیکشن ہوں گے، اس دن ملک بھر میں نگران حکومتیں ہوں گے، ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کا مقصد یہ ہے کہ اس پر سوالات اور انگلیاں نہ اٹھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ تجویز کے تحت الیکشن ہوتے تو دو صوبوں میں انتخابات اور تین صوبوں میں حکومتیں ہوتیں، اسی طرح جب باقی تین صوبوں میں انتخابات ہوتے تو پھر ان دو صوبوں میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہوتیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات ہوں اور اس وقت نگران حکومتیں موجود ہوں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ایک اہم معاملہ انتخابات کی تاریخ کا تعین ہے کہ الیکشن کب ہوں، اس حوالے سے دونوں فریقین کی اپنی اپنی تاریخیں ہیں جن پر کچھ لچک ضرور آئی ہے لیکن ابھی کسی ایک متفقہ نکتے پر نہیں پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہو نے بھی اپنی قیادت سے جاکر دوبارہ بات کرنی ہے، ہمیں بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنی ہے اور آنے والے دنوں میں مثبت پیش رفت کی امید ہے جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک دن میں انتخابات اور نگران حکومتوں کے قیام پر اتفاق بہت بڑی پیش رفت ہے، یہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ایک اہم بات انتخابات کی تاریخ کا تعین ہے، اس میں کئی چیزیں ہمارے سامنے ہیں، بجٹ ملک کو چاہیے، ٹریڈ پالیسی چاہیے، آئی ایم ایف کا جاری جائزہ چاہیے تو ان چیزوں کے لیے تاریخ کا تعین تھوڑا سا پیچیدہ عمل ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہم بھی جتنی لچک دکھا سکتے ہیں، ہم نے بھی دکھائی ہے، وہ بھی دکھا رہے ہیں اور امید ہے کہ اگر اسی طرح سے اسی خلوص کے ساتھ دونوں فریقین چلیں گے تو آخری مرحلہ بھی حل ہوجائے گا۔

اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوا، شاہ محمود قریشی

مذاکرات میں شرکت کے بعد شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 19 تاریخ کو سپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر گفت و شنید سے کوئی راستہ نکال سکتی ہیں تو انہیں اعتراض نہیں ہوگا، وہ بیٹھ کر کوئی حل نکال سکتے ہیں تو بالکل وقت لے لیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سوچ کو سامنے رکھتےہوئے پی ٹی آئی نے وہاں اپنی آمادگی کا اظہار بھی کیا اور عمران خان نے 3 رکنی کمیٹی مذاکراتی عمل کے لیے تشکیل دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ذمہ داری سونپی گئی ہم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھائیں، اسی تناظر میں پی ڈی ایم نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری تین نشستیں ہوئیں، پہلی نشست 27 اور دوسری نشست 28 اپریل کو ہوئی تھی اور ہم نے کوشش کی کہ ہم کسی اتفاق رائے کی طرف آگے بڑھ سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن چیزوں پر ہم نے اتفاق کیا کہ سیاسی جماعتوں کو ایسی بات پر متفق ہونا چاہیے، جو ملک اور عوام کے مفاد میں ہو اور آئین سے مطابقت رکھتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات جس پر اتفاق ہوا وہ یہ تھا کہ مذاکراتی عمل کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے فیصلے پر من و عن آگے لے کر چلیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم اس چیز پر بھی متفق ہوئے کہ اگر کسی چیز پر متفق ہوتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی بنانا ہوگا تاکہ یقینی بنائیں ہم آگےبڑھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا ابتدائی مؤقف تھا کہ آئین کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر ہونے چاہیے اور ہم 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات پر مطمئن ہیں اور ہم چاہتے ہیں پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں اور اس کے بعد خیبرپختونخوا کا عمل منطقی انجام کو پہنچے۔

وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پی ڈی ایم کا ابتدائی مؤقف تھا کہ انتخابات بیک وقت سارے ملک میں ایک ہی روز کیے جائیں بشمول پنجاب اور خیبرپختونخوا اور اسمبلیوں کی تحلیل اس وقت ہو جب اسمبلی کی مدت پوری ہو یعنی کہ 11 اور 12 اگست اور اس پر ہم نے گفتگو کی اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کی۔

’ہم نے کافی لچک دکھائی‘

انہوں نے کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلی 14 مئی کو یا اس سے پہلے تحلیل ہو کیونکہ اس کے پیچھے منطق تھی تاکہ الیکشن 60 دن کے اندر ہونے چاہیئں اور اس 60 دن کے الیکشن کے لیے ہمیں آئینی تحفظ دینا ہوگا، جس کے لیے پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہے اور ایک دفعہ ترمیم کے لیے تیار ہیں لیکن روایت نہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن حالات میں ابھی پھنسے ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے ہم نےیہ تجویز وہاں رکھی، ہم یہ چاہتے ہیں ہمارے درمیان جو معاہدہ ہو وہ تحریری ہو اور ہم اس کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کی توثیق ہو اور وہ اس کے عمل درآمد یقینی بنا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی ہم نے اپنا مؤقف دیا کہ انتخابات ایسے ماحول اور ایسے انداز میں صاف اور شفاف ہوں کہ ان کا نتیجہ قبول کرنے میں کسی کو دقت ہو کیونکہ انتخابات کے نتائج تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ انتخابات ہوجائیں اور اس کے بعد ان کے فیصلوں پر کوئی آمادہ نہ ہو۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے کافی لچک دکھائی اور قومی اتفاق رائے کے لیے یہ لچک دکھائی، ہم نے ایک دن کی تجویز قبول کی، ہم نے نگران سیٹ اپ کی خواہش کو تسلیم کیا، الیکشن ایکٹ کے تحت 54 دن کی قدغن کو تسلیم کیا اور ہم آگے بڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم اور ہمارے درمیان اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوسکا، ہم نے دیانت داری سے کوشش کی اور اس کوشش کو جاری رکھا، اس ماحول میں جہاں حکومتی ساتھیوں کی وجہ سے خراب کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تجویز ہماری نظر میں مثبت، قابل عمل اور آئین کے دائرے کے اندر تھی، اس تجویز کو ہمارے سرکاری دوستوں کو تسلیم کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔

’سپریم کورٹ کو آگاہ کریں گے، 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن ہوں‘

ان کا کہنا تھا کہ جس نیک نیتی سے ہم بیٹھے تھے اور ہم نے کوشش کی تھی اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اپنا مؤقف تحریری طور پر بتادیں گے کہ ہم نے کیا کیا اور کہاں ہم نے لچک دکھائی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم عدالت سے گزارش کریں گے کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے لیے جو ان کا فیصلہ تھا اس پر مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہوسکی، تحریک انصاف چاہے گی الیکشن 14 تاریخ کو کروا دیے جائیں اور خیبرپختونخوا کے انتخابات میں بھی ہم تاخیر نہیں چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کا معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے تو ہم چاہیں گے اس کا فیصلہ بھی جلد از جلد ہو اور خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات ہوں۔

حکومت اور پی ٹی آئی کی کمیٹی کے مذاکرات

اس سے قبل ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے بتایا تھا کہ یہ مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک ہال میں ہوئے۔

مذاکرات میں حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے اسحٰق ڈار، خواجہ سعد رفیق، اعظم نذیر تارڑ ، سردار ایاز صادق کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی اور سید نوید قمر شامل تھے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کا وفد وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینئر نائب صدر فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر پر مشتمل تھے۔

مذاکرات کے آغاز سے قبل چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکمران اور پی ٹی آئی مذاکرتی کمیٹی کےاعزاز میں عشائیہ دیا جس میں اسحٰق ڈار، طارق بشیر چیمہ،نوید قمر، اعظم نذیر تارڑ اور یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر شریک ہوئے۔

پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے مذاکرات میں آپ سب کو پتا چل جائے گا کہ ہماری کیا شرائط ہیں، ہم پہلے سے میڈیا کو کیا بتائیں آج ہم حکومتی ٹیم سے کیا بات کرنے جا رہے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا دونوں جانب سے مذاکرات میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں؟ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی، ہم سنجیدگی اور ایمان داری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے اجلاس میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تیسری نشست کے لیے حکمت عملی طے کی۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی جو مذاکرات کے مخالف ہیں۔

جمعے کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے دوران دونوں اطراف کے رہنماؤں نے اپنی تجاویز پیش کیں, پی ٹی آئی کے وفود نے اپنی قیادت اور حکومتی نمائندوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہا تھا۔

مذاکرات کے بعد اسحٰق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ منگل کے روز (آج) ہونے والی بات چیت مذاکرات کا تقریباً آخری دور ہوگا۔

خیال رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات سپریم کورٹ کی تجویز پر گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے جس سے طویل عرصے سے جاری تعطل کا خاتمہ ہوا تھا، مذاکرات کے دو دور کے بعد اب فریقین کے درمیان کل بروز منگل مذاکرات کا تیسرا اور آخری دور متوقع ہے۔

تاہم، مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے کامیاب نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ روز بھی عمران خان نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کے حکومتی کے بد دیانت منصوبے میں نہیں پھنسےگی اور اگر سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو پارٹی سڑکوں پر نکلے گی۔

حکومت نے عمران خان کے الٹی میٹم کو ناقابل عمل قرار دیا اور ان سے کہا کہ وہ بات چیت کی کامیابی کے لیے لچک کا مظاہرہ کریں۔

قبل ازیں وفاقی وزیر جاوید لطیف نے پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دہشت گردوں‘ اور قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

اس سے ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ انہیں مذاکرات کا کوئی ’مثبت نتیجہ‘ نظر نہیں آرہا، انہوں نے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا جبکہ وہ شرائط عائد کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں