’ایک ہی دن انتخابات پر رضا مندی 14 مئی تک اسمبلیوں کی تحلیل سے مشروط تھی‘

اپ ڈیٹ 03 مئ 2023
پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری — تصویر: فیس بک
پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری — تصویر: فیس بک

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ہمارا مؤقف یہ تھا کہ اگر 14 مئی تک تمام اسمبلیاں تحلیل کردی جاتی ہیں تو ہم ایک ہی دن انتخابات پر رضامند ہیں لیکن پی ڈی ایم اس پر راضی نہیں ہوئی۔

پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’میڈیا نے جان بوجھ کر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں پی ٹی آئی کی پوزیشن خراب کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات میں ہمارا مؤقف یہ تھا کہ اگر 14 مئی تک قومی اور دیگر دو صوبائی (سندھ اور بلوچستان) اسمبلیاں تحلیل کردی جاتی ہیں تو ہم ایک ہی دن عام انتخابات کرانے پر رضامند ہیں لیکن پی ڈی ایم اس پر راضی نہیں ہوئی‘۔

سابق وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا تھا کہ فریقین اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کے لیے تاریخ مقرر کرنے میں ناکام رہے چنانچہ بات چیت اختتام پذیر ہوگئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز رات گئے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ملک میں انتخابات کے معاملے پر بات چیت کا تیسرا اور ممکنہ طور پر آخری دور منعقد ہوا تھا۔

مذاکرات کے بعد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں فریقین نے نگراں سیٹ اپ کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ پر کرانے پر اتفاق کیا، لیکن یہ فیصلہ کہ وہ تاریخ کیا ہوگی اسے طے ہونا ابھی باقی ہے۔

البتہ جہاں وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دونوں فریقین کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس میں مثبت پیش رفت کا دعویٰ کیا تھا، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے پیش کردہ ’قابل عمل تجاویز‘ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔

شاہ محمود قریشی اس بات پر بضد تھے کہ سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے فیصلے، جس میں پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا تھا، پر مکمل طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

بات چیت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ہماری تین نشستیں ہوئیں، پہلی نشست 27 اور دوسری نشست 28 اپریل کو ہوئی تھی اور ہم نے کوشش کی کہ ہم کسی اتفاق رائے کی طرف آگے بڑھ سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا ابتدائی مؤقف تھا کہ آئین کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر ہونے چاہئیں اور ہم 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات پر مطمئن ہیں اور ہم چاہتے ہیں پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں اور اس کے بعد خیبرپختونخوا کا عمل منطقی انجام کو پہنچے۔

وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پی ڈی ایم کا ابتدائی مؤقف تھا کہ انتخابات بیک وقت سارے ملک میں ایک ہی روز کیے جائیں بشمول پنجاب اور خیبرپختونخوا اور اسمبلیوں کی تحلیل اس وقت ہو جب اسمبلی کی مدت پوری ہو یعنی کہ 11 اور 12 اگست اور اس پر ہم نے گفتگو کی اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلی 14 مئی کو یا اس سے پہلے تحلیل ہوں تاکہ الیکشن 60 دن کے اندر ہوجائیں اور اس 60 دن کے الیکشن کے لیے ہمیں آئینی تحفظ دینا ہوگا، جس کے لیے پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہے اور ایک دفعہ ترمیم کی جاسکے لیکن روایت نہ بنے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے قومی اتفاق رائے کے لیے کافی لچک دکھائی اور ایک دن انتخابات کی تجویز قبول کی، ساتھ ہی نگران سیٹ اَپ کی خواہش کو تسلیم کیا، الیکشن ایکٹ کے تحت 54 دن کی قدغن کو تسلیم کیا اور ہم آگے بڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم اور ہمارے درمیان اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوسکا، ہم نے دیانت داری سے کوشش کی اور اس کوشش کو جاری رکھا، اس ماحول میں جہاں حکومتی ساتھیوں کی وجہ سے خراب کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہماری تجویز ہماری نظر میں مثبت، قابل عمل اور آئین کے دائرے کے اندر تھی لیکن اس تجویز کو ہمارے سرکاری دوستوں کو تسلیم کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔

پی ٹی آئی، حکومت مذاکرات

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین بات چیت کا پہلا دور 27 اپریل کو ہوا تھا۔

پہلی بات چیت کے چند گھنٹے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قائد ایوان اسحٰق ڈار اور قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم کو الگ الگ خط لکھے تھے جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ حکومتی اور اپوزیشن دونوں بینچوں سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی غرض سے ارکان نامزد کریں۔

جس کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ کو ہوا تھا، اس دوران پی ٹی آئی کے اتحادی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، جسے پی ٹی آئی نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے اس طرح کے بگاڑ پیدا کرنے کے باوجود میز پر رہنے کا عزم کیا۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف اور خواجہ آصف جیسے کابینہ کے وزرا نے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کھل کر مخالفت کی، جس پر اپوزیشن جماعت حکومت سے وضاحت طلب کرنے پر مجبور ہوگئی۔

اس کے 4 روز بعد بات چیت کا تیسرا راؤنڈ گزشتہ روز رات گئے منعقد ہوا تھا جس کے بعد حکومتی اراکین نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کرانے پر رضامند ہوگئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں