نیپرا صارفین کے واجبات پر کے الیکٹرک سے سود کی وصولی کا خواہاں

اپ ڈیٹ 03 مئ 2023
کے ای فی الحال ایک ایم وائی ٹی رجیم کے تحت کام کر رہی ہے جس کی مدت رواں مالی سال کے اختتام پر پوری ہوجائے گی — فائل فوٹو: اے ایف پی
کے ای فی الحال ایک ایم وائی ٹی رجیم کے تحت کام کر رہی ہے جس کی مدت رواں مالی سال کے اختتام پر پوری ہوجائے گی — فائل فوٹو: اے ایف پی

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کراچی میں بجلی کے صارفین کو ’ٹیرف کلا بیک میکانزم‘ کے تحت رقم کی واپسی کے لیے مقررہ 43 ارب روپے سے زائد رقم پر مارک اپ چارج کرنے کا اشارہ دے دیا۔

ساتھ ہی ایک اور کثیر سالہ ٹیرف (ایم وائی ٹی) کی اجازت دینے سے پہلے گزشتہ 7 برسوں میں نئے جنریشن پلانٹس کے لیے سرمایہ کاری میں تاخیر کی نوعیت کا جائزہ لینے کا بھی عندیہ دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنریشن ٹیرف کے لیے کے-الیکٹرک کی درخواست پر عوامی سماعت کے دوران کراچی کے صنعتی صارفین نے مشورہ دیا کہ نجی یوٹیلیٹی کو مہنگے ایندھن پر پلانٹ لگانے کی اجازت دینے کے بجائے نیشنل گرڈ سے زیادہ سے زیادہ سستی بجلی کی فراہمی کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

تاکہ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر میں کاروباری مواقع کی سہولت فراہم کی جاسکے جو قومی اوسط سے زیادہ سہ ماہی چارجز اور فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کا شکار ہے۔

کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے ریگولیٹر سے درخواست کی مرکزی اقتصادی ترسیل کو مدنظر رکھتے ہوئے شفافیت کے لیے اس کے پاور پلانٹس کے لیے بجلی پیدا کرنے کے الگ الگ نرخ مقرر کے جائیں۔

پہلی مرتبہ ایک انٹیگریٹڈ پاور یوٹیلیٹی اپنی پیداوار، ترسیل اور تقسیم، کے کاروبار کے لیے علیحدہ لائسنس اور ٹیرف کا مطالبہ کر رہی۔

اس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ اس آئی پی پی ماڈل سے مطابقت رکھتا ہے جس پر ریگولیٹر سرکاری تقسیم کار کمپنیوں اور انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے لیے عمل پیرا ہے۔

درخواست کے مطابق کے الیکٹرک نے آر ایل این جی پر مبنی بجلی کی پیداوار کے لیے جنریشن ٹیرف 22.76 روپے فی یونٹ سے 40.12 روپے فی یونٹ اور ایچ ایس ڈی یا ایچ ایف او سے پیدا کی جانے والی بجلی کے لیے 37.31 روپے فی یونٹ سے 54.30 روپے فی یونٹ کرنے کی درخواست کی ہے۔

چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی کی زیر صدارت 3 گھنٹے جاری رہنے والی سماعت کے دوران ریگولیٹر کے اراکین اور کیس افسران نے کہا کہ ریگولیٹر کی جانب سے گزشتہ کثیر سالہ ٹیرف (ایم وائی ٹی) میں (7 سال تک) کی اجازت دی گئی سرمایہ کاری ڈیڈ لائن کے اندر مکمل نہیں کی گئی اور یہاں تک کہ جدید ترین بن قاسم پاور اسٹیشن (بی کیو پی ایس-3) جو فی الحال تکمیل کے مرحلے میں ہے برسوں پہلے مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔

نیپرا کیس کے افسران نے رپورٹ کیا کہ پلانٹس کو اس سرمایہ کاری کی بنیاد پر ریٹرن بھی دیا گیا جو سال کے وسط مدتی جائزے سے نہیں گزر سکا اور صارفین سے ٹیرف میں وصول کیا گیا۔

نیپرا اراکین نے یہ اس بات پر توجہ دینے کی تجویز دی کہ پلانٹس اپنی پروجیکٹ لائف مکمل کر رہے ہیں لیکن لائسنس یا متعلقہ معاہدوں کے تحت حکومت کو منتقل نہیں کیے جارہے اور کیا یہ پلانٹس ان کی بقایا قیمت یا اسکریپ ویلیو پر لیے گئے تھے۔

کے الیکٹرک کے چیف فنانشل افسر عامر غازیانی اور نیپرا کی ٹیم نے ایک دوسرے پر سرکاری اداروں اور کے ای کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے مختلف مؤقف اختیار کرنے کا الزام لگایا۔

کچھ سوالات یہ بھی اٹھائے گئے کہ کے ای کی نجکاری اور سابقہ ایم وائی ٹی سے کراچی کے صارفین کو کیا فائدہ ہوا۔

عامر غازیانی نے کہا کہ کے الیکٹرک کا اوسط ٹیرف اس وقت 31-32 روپے کے بجائے 80 روپے فی یونٹ سے زیادہ ہو چکا ہوتا کیونکہ یوٹیلیٹی نے نقصانات کو کم کیا اور نقصانات کو 45 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد پر لانے اور ریکوری بہتر بنا کر 95 فیصد کرنے میں کامیاب رہی جو کہ سرکاری ڈسکوز کے مقابلے میں بے مثال ہے۔

انہیں یاد دلایا گیا کہ کچھ ڈسکوز بشمول کچھ کے ای سے بڑی کمپنیوں جیسے فیصل آباد، لاہور اور اسلام آباد کی کمپنیوں کے ’کے الیکٹرک‘ کے مقابلے میں نقصانات کم اور ریکوریز زیادہ ہیں۔

کے الیکٹرک فی الحال ایک ایم وائی ٹی رجیم کے تحت کام کر رہی ہے جس کی مدت رواں مالی سال کے اختتام پر پوری ہوجائے گی۔

اس بار کمپنی نے اپنے 6 پلانٹس میں سے ہر ایک کے لیے علیحدہ ٹیرف کی درخواست دائر کی ہے، ان میں سے سوائے سائٹ اور کورنگی گیس ٹربائن پاور اسٹیشنز کے یہ تمام پلانٹس دہرے ایندھن پر چل سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں