اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی چھپانے کا کیس اس وقت غیر معمولی ڈرامائی انداز اختیار کرگیا جب جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر کی طرف سے درخواست کو خارج کرنے کا اکثریتی فیصلہ چند منٹ بعد ہی عدالت کی ویب سائٹ سے حذف کر دیا گیا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے مبینہ طور پر بیٹی چھپانے کے خلاف دائر درخواست پر اکثریتی فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریر کیا اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے اس کی توثیق کی جس میں کہا گیا کہ درخواست شروع سے ہی قابلِ سماعت نہیں تھی۔

لارجر بینچ نے درخواست دائر کرنے میں درخواست گزار کے طرز عمل کی بھی نفی کی اور استفسار کیا کہ درخواست گزار کو اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے تھا کہ عدالت ایسا آلہ نہیں جس کا استعمال غیر متعلقہ معاملات کے لیے ہونا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی چیئرمین کی طرف سے 2018 کے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی میں اپنی مبینہ بیٹی ٹیرین وائٹ کو ظاہر نہ کرنے کے خلاف نااہلی کے لیے دائر درخواست پر 30 اپریل کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے فیصلے میں جسٹس محسن اختر کیانی کی طرف سے دو آفس نوٹسز شامل کیے گئے تھے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے (2 مئی) کو آفس نوٹ میں لکھا تھا کہ اس درخواست پر معزز چیف جسٹس کی طرف سے ڈرافٹ کیا گیا فیصلہ موصول ہوا تھا، تاہم میری طرف سے فیصلے کی توثیق نہیں کی گئی اور الگ الگ نتائج درج کیے گئے ہیں جن کی توثیق جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی تھی۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا تھا کہ ان کی طرف سے ایک الگ فیصلہ تحریر کیا گیا تھا جس کی جسٹس طاہر نے توثیق کی تھی اور اسے 3 مئی تک سنانے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے 9 مئی کو اپنے دوسرے نوٹ میں لکھا تھا کہ اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا اور ایک نوٹ کے ساتھ اس کیس پر 3 مئی کو فیصلہ سنانے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے نوٹ میں لکھا تھا کہ اس کے باوجود فیصلہ جاری نہیں کیا گیا اور فیصلے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں کی گئیں۔

انہوں نے لکھا تھا کہ رجسٹرار کو دو رکنی بینچ کا فیصلہ جاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی کیونکہ بینچ کے دو ارکان کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کے اجرا میں مزید تاخیر مقدمے کے نتائج پر شکوک پیدا کر سکتی تھی جبکہ عدالتی عمل کی رازداری، سالمیت اور عدالت کی آزادی کی مذمت ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے 31 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف درخواست کو 3 ارکان پر مشتمل بینچ میں شامل 2 جج نے خارج قرار دیا ہے۔

چیف جسٹس نے دو رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تعلقات عامہ افسر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ فیصلہ جاری کیے بغیر اور فیصلہ جاری کرنے کے لیے کاز لسٹ کے اجرا کے بغیر یا فریقین اور ان کے وکلا کو آگاہ کیے بغیر اور بینچ کے تیسرے رکن (چیف جسٹس ہائی کورٹ) کے دستخط کے بغیر، دو ججوں کی رائے آفس نوٹس کے ہمراہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی گئی جو عدالت کا فیصلہ نہیں ہے اور رولز اور روایات کے خلاف ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے بینچ دوبارہ تشکیل دے دیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ان افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی جو کاز لسٹ کے اجرا کے بغیر رائے کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

خیال رہے کہ 2فروری 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر ان کی نااہلی کی درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

یکم فروری کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے جج پر اعتراض کرتے ہوئے کیس خارج کرنے کی اپیل کی تھی۔

درخواست گزار نے استدعا کر رکھی تھی کہ عدالت کاغذاتِ نامزدگی میں جھوٹ بولنے پر عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت بطور رکنِ اسمبلی نااہل قرار دے۔

کاغذات نامزدگی میں مبینہ بیٹی کو ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی چیف جسٹس عامر فاروق نے ساجد محمود کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔

درخواست گزار کا مؤقف

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں ٹیریان وائٹ کی کفالت کے انتظامات کیے لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں اور الیکشن لڑنے کے حلف نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔

درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہونے والے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی جانب سے 18 نومبر 2004 کے ڈیکلیریشن پر مشتمل اضافی دستاویز پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے یہ ڈیکلیریشن ٹیریان جیڈ خان وائٹ کی درخواست کی حمایت میں کیا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ کیرولین وائٹ (ٹیریان کی والدہ اینا لوئیسا سیتا وائٹ کی بہن) کو ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے۔

ڈیکلیریشن میں مزید کہا گیا ہے کہ جمائما خان نے ٹیریان جیڈ کے سرپرست کے طور پر خدمات انجام دینے سے انکار کردیا تھا اور سرپرستی کے لیے کیرولین وائٹ کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ٹیریان کے بہترین مفاد اور خواہش کے مطابق ہے۔

اینا لوئیسا (سیتا) وائٹ لارڈ گورڈن وائٹ کی بیٹی تھی جنہوں نے ایک بڑے صنعتی گروپ ہینسن پی ایل سی کی امریکی شاخ کی سربراہی کی۔

درخواست گزار ساجد محمود نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے سیتا وائٹ سے شادی نہیں کی کیونکہ اس کے ’نسل پرست‘ والد نے مدعا علیہ (عمران خان) کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے سیتا وائٹ سے شادی کی تو ان دونوں کو اس کی دولت میں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔

اس کے بعد ہی عمران خان کی ملاقات ایک اور امیر خاتون جمائما سے ہوئی اور بہت ہی کم عرصے میں ان سے شادی کرلی۔

درخواست میں ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں ٹیریان جیڈ کی تحویل جمائما کو دی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ اینا لوسیا وائٹ نے 27 فروری 2004 کی اپنی وصیت میں جمائما خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ خان وائٹ کا سرپرست نامزد کیا تھا، بعد ازاں اسی برس 13 مئی کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جمائما گولڈ اسمتھ 1995 سے 2004 تک عمران خان کی شریک حیات تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھپائے گئے حقائق کی تصدیق کیلیفورنیا کی ایک عدالت کی جانب کیے گئے فیصلے سے ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ مدعا علیہ (عمران خان) ٹیریان جیڈ کے والد ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ابتدائی طور پر اپنے اٹارنی کے توسط سے کارروائی میں شامل ہوئے لیکن جب انہیں خون ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا تو وہ کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعد میں جب سیتا وائٹ کی بہن کیرولین وائٹ نے عدالت سے کہا کہ اسے ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے تو انہوں نے عدالت میں ڈیکلیریشن جمع کرایا۔

تبصرے (0) بند ہیں