سپریم کورٹ کا حکم، یہ حسن سلوک مخصوص بنیاد پر صرف عمران خان کے لیے ہے؟ خواجہ آصف

اپ ڈیٹ 11 مئ 2023
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے—فوٹو: ڈان نیوز
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے—فوٹو: ڈان نیوز

وزیردفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو رہا کرنے حکم پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں یہ دوہرا معیار کیوں ہے اور اس طرح کا حسن سلوک مخصوص بنیادوں پر صرف عمران خان کے لیے ہے۔

وزیردفاع خواجہ آصف نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو رہا کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مبارک کا موقع ہے، ان کو دلی مبارک باد دیتا ہوں کہ دو راتوں میں کم ازکم ٹانگ کی شفا ملی ہے کہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں عدلیہ سے سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتا لیکن میڈیا کی وساطت سے کم ازکم یہ سوال ضرور سامنے لانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف سے لے کر مجھ سے ورکر اور بے شمار ہمارے ساتھی عدلیہ کے اس حسن سلوک سے محروم رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ حسن سلوک مخصوص بنیادوں پر کیا صرف عمران خان کے لیے محفوظ ہے یا ان کے آج حکم کی جگہ کہا گیا کہ ہماری خواہش ہے، عدالتیں حکم دیتی ہیں، خواہشات کا اظہار نہیں کرتیں، قانون اور آئین ان کو خواہشات کے اظہار کا فرض نہیں بلکہ حکم کرنے کا ذمہ دیتا ہے‘۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’عدالتیں خواہ لوئر عدالتیں، ہائی کورٹ یا عدالت عظمیٰ ہوں میں ان کی عزت اور احترام کرتا ہوں، میں تو ان کے حکم کا منتظر تھا لیکن انہوں نے خواہشات کا اظہار کرنا شروع کیا کہ آپ کی کیا ہماری یہ خواہش ہے‘۔

’عمران خان کی خواہشات پر قانون اور آئین پامال ہو رہا تھا تو اضطراب نہیں تھا‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ ازخود نوٹس، یہ نوٹسز، یہ راتوں کو عدالتیں اور دن کو عدالتیں، تشویش اور اضطراب جب اسی شخص عمران خان کی خواہشات پر قانون اور آئین پامال ہو رہا تھا، شہباز شریف عدالت میں آشیانہ کے لیے گیا، پکڑ لیا اس کو صاف پانی میں لیکن کسی نے نہیں پوچھا، ہم نے پورے 90،90 دن گزارے، یہاں تو 14 روز کا ریمانڈ تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے قانون میں ترمیم کی اور اس کا سب سے پہلا فائدہ اٹھانے والا عمران خان ثابت ہوا لیکن ان 90 دنوں میں کسی کو خیال نہیں آیا کہ ہم ان لوگوں کو بھی بلا کر پوچھ لیں کہ آپ پر کیا گزر رہی ہے، ان کی حراست بھی کسی ریسٹ ہاؤس میں دے دیں‘۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’مجھے انہوں نے جیل کے اندر زمین پر دو کمبل دے کر لٹا دیا، میں نے تو کوئی شکایت نہیں کی لیکن اب تو ریسٹ ہاؤس میں سہولیات کا بھی پوچھا جاتا ہے کہ جہاں پر ان کو رات رکھا جا رہا ہے، وہاں سہولیات کیا ہیں‘۔

سپریم کورٹ کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں دو معیار کیوں ہیں، ہر جگہ دو معیار ہیں، عام زندگی میں بھی دو معیار ہیں، قانون، آئین اور ہر کسی چیز کے دو معیار ہیں‘۔

عمران خان سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’وہ کہہ رہے ہیں مجھے ڈنڈے مارے گئے، جس کے بعد مجھے کوئی چیز یاد نہیں ہے، یہ یاد داشت اسی طرح سہولت کے مطابق جب چاہا چلی گئی اور جب چاہا واپس آگئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پولیس کی حراست میں ان کا جو میڈیکل ہوا ہے وہ ان کے ذاتی ہسپتال کے میڈیکل میں زمین اور آسمان کا فرق ہے، وہاں پر ان کے زخم کی نوعیت اور ہے، یہاں 7 ڈاکٹروں جو دیکھا ہے، ان کی نوعیت اور ہے، یہ قوم کو کب تک بے وقوف بنایا جاتا رہے گا‘۔

’عمران خان کو وہیل چیئر کی ضرورت نہیں پڑی‘

وزیردفاع نے کہا کہ ’کوریڈور میں جو چل کر گئے ہیں اس کا فاصلہ 40 سے 50 قدم ضرور ہے، اس میں آپ نے بھی دیکھا اور میں نے بھی دیکھا، سارے پاکستان کے عوام نے بھی دیکھا وہاں ان کو وہیل چیئر کی ضرورت پڑی اور نہ خدا نخواستہ ان کی چال میں کوئی ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کی ایک ٹانگ زخمی ہے یا اس میں کوئی تکلیف ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پرتشدد مظاہروں پر اگر وہ کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم تو گرفتاری سے پہلے ان کا ویڈیو پیغام نشر ہوا ہے، اس میں انہوں نے اپنے کارکنان کو کیا تلقین کی تھی، کیا انہوں نے تشددکے لیے نہیں اکسایا اور کشیدگی کے لیے تیار نہیں کیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا‘۔

’عدالت عظمیٰ کو شہدا کے یاد گار پر حملوں پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت عظمیٰ کو شہدا کے یادگاروں کے اوپر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا، جنہوں نے اپنی جانیں وطن پر قربان کی ہیں، ان کی یادگاروں پر حملہ ہوا، ان کی بے حرمتی کی گئی، آرمی کی تنصبیات اور وطن کے دفاع کے لیے استعمال ہونے والی تنصیبات اور کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ ہوا لیکن کوئی از خود نوٹس نہیں لیا گیا‘۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ان اقدامات پر عدلیہ میں تشویش کی کوئی لہر نہیں دوڑی لیکن ایک فرد واحد کو بڑی عزت اور آبرو کے ساتھ ایک ریسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا، نواز شریف، آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ کسی ریسٹ ہاؤس میں نہ رہی، مریم نواز کسی ریسٹ ہاؤس میں نہیں رہی، میں اور شہباز شریف جیل میں پڑوسی تھے، حمزہ شہباز بھی تھا، ہمیں تو کسی ریسٹ ہاؤس میں نہیں رکھا گیا، ہمیں تو گھر سے کھانا منگوانے کے لیے بھی عدالتوں میں جانا پڑتا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہاں عدالت عظمیٰ نے یقینی بنایا ہے کہ وہاں پر تمام سہولیات کے ساتھ 10 بندے بھی جا کر ملیں، ہر چیز کو قلم بند اور یقینی بنایا گیا ہے کہ ایسی کوئی وہولت جو عمران خان کی ضرورت ہو وہ اس سے محروم نہ ہو، باقاعدہ حکم نامے میں لکھ دیا گیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ بتایا جائے، صرف ایک سوال پوچھ رہا ہوں کہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے، اس نے پاکستان میں تمام کم ازکم پنجاب اور خیبرپختونخوا میں جس طرح جلاؤ گھیراؤ کیا اور ان کے رہنماؤں، خواتین رہنماؤں نے بھی جو زبان استعمال کی ہے اور کس طرف جانے کی ہدایت کی جا رہی ہے، کیا یہ ملک کی سالمیت پر حملہ نہیں ہے، کیا یہ ملک دشمنی نہیں ہے، کیا یہ بنتا نہیں ہے کہ اس پر نوٹس لیا جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ان چیزوں کے اوپر کیا عدلیہ کے کان پر جو بھی رینگی ہے، بڑی ادب کے ساتھ کہا گیا کہ ہماری خواہش ہے، یعنی عدالت حکم کا لفظ استعمال کرنے سے بھی گریز کر رہی ہے اور وہ خواہش یا درخواست کہہ دیتے، یہ حالات ہیں، دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں کس طرح کا حالات کروٹ لیتے ہیں‘۔

’یہ وکیل صاحب آڈیو میں بتا رہے ہیں فیصلہ یہ آئے گا‘

وزیردفاع نے کہا کہ ’ایک گفتگو منظر عام پر آئی ہے، وہاں پر ایک وکیل صاحب، جن کے نام کا پہلا حصہ میرے والا ہی ہے، وہ آپ کے برادری کے بندے کو بتا رہے ہیں کہ فیصلہ یہ آنا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’انہوں نے سوموار اور منگل کو جو ہونے والا اس کے بارے میں کچھ اور بتایا ہے، میں کم ازکم 6 مہینے جیل میں رہا ہوں اور تین بینچ ٹوٹے تھے، لوگ ہماری ضمانت کی درخواست سننے سے انکاری ہوتے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہائی کورٹ کے جس جج نے پرویزالہٰی کو ریلیف دیا ہے، ایک دفعہ انہوں نے بھی انکار کیا تھا کہ ان کا مقدمہ نہیں سننا چاہتا‘۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’ایک خاتون کو حراست سے ایک بندہ ہدایات دے رہا ہے کہ آپ فلاں سے رابطہ کریں، اعظم سواتی سے کہیں فلاں سے رابطہ کریں، میں اندازہ نہیں لگاؤں گا کہ کس سے رابطہ کرناہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ وطن عزیز میں کیا ہو رہا ہے، کیا اس طرح ریاستیں چلتی ہیں، ریاست کے اوپر حملہ ہوا ہے، ہماری دفاعی تنصیبات پر جو حملہ ہوا ہے اس کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن جو کچھ لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں ہوا ہے یہ ایک سلسلہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ کسی اور پارٹی یا عنصر نے کیا ہوتا تو آپ نے کس طرح وضاحت کرنی تھی اور کیا نام دینا تھا اور کس طرح لیبل کرنا تھا، لیکن اتنی عزت و تکریم کی جارہی ہے، کیا ہمارے قسمت میں 6،6 مہینے ضمانت نہیں ہونی ہے، وہ دو رات رہے تو کہتے ہیں مجھے کچھ یاد نہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا ہوں کہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے، ہماری دفعہ نہ کوئی از خود نوٹس ہوتا تھا اور نہ ہی انصاف کی حس جاگتی تھی، اب پتا نہیں انہوں نے یہ دو راتیں کیسے گزاری ہیں، کہ اس کو 15 منٹ میں انصاف کیوں نہیں دیا گیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں