فوجی تنصیبات پر براہ راست حملوں میں ملوث افراد پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے، پی ٹی آئی سینیٹر

اپ ڈیٹ 19 مئ 2023
بیرسٹر ایک ہی معاملے پر دو مختلف نقطہ نظر پیش کیے— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
بیرسٹر ایک ہی معاملے پر دو مختلف نقطہ نظر پیش کیے— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا ہے کہ جو لوگ براہ راست فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف آرمی ایکٹ 1952 کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جب ان سے 9مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد پر ایکٹ لاگو کرنے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں رائے پوچھی گئی تو انہوں نے جو لوگ فوجی تنصیبات پر براہ راست حملوں میں ملوث ہیں ان کا خصوصی قانون کے تحت ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے باہر رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ ہمارا قانون ہے، فوجی حکام اور فوجی تنصیبات پر کام کرنے والے شہریوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں عام شہریوں پر بھی اسی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ فوجی تنصیبات اور املاک پر براہ راست اور ذاتی طور پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی شہری پر حملوں کی سازش کرنے پر خصوصی قانون کے تحت فرد جرم عائد کی جائے یا مقدمہ چلایا جائے۔

بعد ازاں سینیٹر ظفر نے اس معاملے پر ایک مختلف موقف کے ساتھ ٹوئٹ کی۔

انہوں نے ٹوئٹ کی کہ فسادات وغیرہ کے نتیجے میں سرکاری املاک کو باضابطہ نقصان پہنچانے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ صرف عام فوجداری عدالتوں میں ہی چل سکتا ہے اور آرمی ایکٹ کے تحت کوئی بھی مقدمہ چلانا آئین اور منصفانہ ٹرائل کے قانون کی خلاف ورزی ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں