لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں۔
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں۔

ہم نے اپنی 76 سلہ تاریخ میں کتنی ترقی کی ہے اور ہم اپنے اوپر حکومت کرنے والے انگریز حکمرانوں کے مقابلے میں کس حد تک پسماندہ قوم ہیں۔ کچھ قارئین دیگر ترقی پذیر ممالک سے مقابلہ کرنے کے بجائے سابق انگریز حکمرانوں سے مقابلے کو غیرمنصفانہ قرار دیں گے۔ لیکن یہاں موازنہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چند سماجی اقتصادی اشاریوں کے لحاظ سے برصغیر پر دو صدیوں تک حکمرانی کرنے والے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ترقی کی رفتار میں فرق کو اجاگر کیا جاسکے۔

اب شرح خواندگی کو ہی بطورِ مثال لے لیں۔ برطانیہ نے 18ویں صدی کے آغاز میں(1701ء) بالغ افراد (15 سال اور اس سے زائد عمر) کی خواندگی کی شرح 54 فیصد حاصل کی جبکہ ہم نے 2006ء میں 54 فیصد (10 سال اور اس سے زائد عمر) کی شرح خواندگی حاصل کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم 2006ء میں شرحِ خواندگی میں برطانیہ کے مقابلے میں 305 سال پیچھے تھے۔ ہم نے مالی سال 2022ء میں اپنی شرح خواندگی کو تقریباً 63 فیصد تک بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جبکہ یہ سطح برطانیہ نے 1850ء یا اس کے آس پاس کے برسوں میں حاصل کرلی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے خواندگی کے لحاظ سے اپنی پسماندگی کو 16 سالہ عرصے میں 305 سے کم کرکے 172 سال کردیا ہے۔

ہم اپنے سابق حکمرانوں کے برابر آنے کی کوششیں تیز کیوں نہیں کرتے؟ آخرکار ہم نے 76 سال قبل اپنے نوآبادیاتی آقاؤں سے ملتی جلتی حکمرانی کی ذہنیت بھی تو اپنائی تھی، جو آج بھی ہمارے طرزِ حکمرانی میں ظاہر ہوتی ہے۔ کیا ہماری یہ ذہنیت خود ہماری پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک نہیں ہے؟

اگر برطانیہ اسی نوآبادیاتی ذہنیت کے ساتھ اپنے ملک پر بھی حکمرانی کرتا جس طرح ہم پر کی گئی تو برطانیہ میں 20ویں صدی کے آغاز میں خواندگی کی شرح تقریباً 100 فیصد تک نہ پہنچ پاتی۔

آزادی سے پہلے ہمارےآقا ہمارے دشمن تھے۔ ان کے جانے کے بعد ہم اپنے اندر اپنے دشمن تلاش کرنے کی کوشش (کامیابی سے) کررہے ہیں۔ یہ ہمارے موجودہ آقاؤں کی بنیادی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ شاید میں نے آغاز میں ہی غلط سوالات پوچھے تھے۔ لیکن مجھے اپنی اس تحقیق میں مشغول رہنے دیں۔

میں اگر پہلے پیراگراف میں مجموعی شرحِ خواندگی کے بجائے خواتین کی خواندگی کا انتخاب کرتا تو صورت حال مزید خراب ہوتی۔ لیکن (اگر ممکن ہو تو) مجھے دیگر اشاریوں میں تسلی تلاش کرنے دیں۔ ہماری اوسط متوقع عمر 1950ء میں 35 سال کے لگ بھگ تھی جبکہ یہ سطح برطانیہ نے 16ویں صدی کے وسط (1550ء) میں ہی حاصل کرلی تھی۔

آزادی کے وقت بھی ہم اپنے انگریز حکمرانوں سے تقریباً 400 سال پیچھے تھے۔ اس کے بعد سے ہم نے مالی سال 2020ء میں 67 سال کی اوسط متوقع عمر حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ ہمارے سابق نوآبادیاتی آقاؤں نے 1947ء میں ہی یہ ہدف حاصل کرلیا تھا۔ اس لیے، مالی سال 2022ء میں متوقع عمر کے لحاظ سے ہم برطانیہ سے صرف 75 سال پیچھے تھے۔ 2021ء میں برطانیہ کی متوقع عمر 81 سال تھی۔ ہمیں اس سطح تک پہنچنے میں مزید کتنا وقت لگے گا؟

سال 1950ء میں بچوں کی شرح اموات (پیدا ہونے والی ہزار بچوں میں سے جو اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں) 278 تھی۔ 1861ء میں برطانیہ میں یہ تعداد 150 تھی جبکہ پاکستان نے تعداد 1968ء میں حاصل کی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ نومولود بچوں کی شرحِ اموات کے معاملے میں 1968ء میں ہم برطانیہ سے 107 سال پیچھے تھے۔ اس کے بعد ہم نے 2023ء میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح 56 تک دیکھی۔ یہ سطح برطانیہ نے 1940ء کے آس پاس حاصل کی تھی، یعنی ہم بچوں کی شرح اموات کے لحاظ سے ان سے 83 سال پیچھے ہیں۔

بچوں کی اموات کا تخمینہ لگانے والے اقوامِ متحدہ کے انٹر ایجنسی گروپ کے مطابق، 1950ء میں پاکستان میں بچوں کی اموات کی شرح (1000 بچوں میں سے جو 5 سال کی عمر سے پہلے انتقال کرجائیں) 377 تھی۔ بچوں کی اموات کی اتنی زیادہ شرح برطانیہ میں 200 سال میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ 1950ء میں برطانیہ میں ہر ہزار بچوں میں اموات کی تعداد 37 تھی (جوکہ پاکستان سے 10 گنا زیادہ کم ہے)۔

2021ء میں اس حوالے سے تخمینہ شدہ تعداد برطانیہ میں تقریباً 4 جبکہ پاکستان میں 63 تھی۔ اگرچہ ہم برطانیہ سے کئی سال پیچھے ہیں لیکن عمر بچوں کی شرحِ اموات کم کرنے میں ہمیں کوششیں قابلِ ذکر ہیں۔

1964ء میں ہمارے ملک میں نوجوانوں کی شرح اموات (5 سے 14 سال کے درمیان) 27 کے قریب تھی جبکہ 2021ء میں یہ کم ہوکر 7 رہ گئی۔ 2021ء میں برطانیہ میں اس شرح میں صرف 3.6 سے 0.7 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ 2021ء میں یہ شرح پاکستان میں برطانیہ کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ تھی۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، 2020ء میں پاکستان میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا تناسب جو ایم ایم آر کہلاتا ہے (ایم ایم آر ہر ایک لاکھ پیدائشوں میں خواتین کی اموات کی تعداد ہے) 154 تھا۔ تاہم قومی اقتصادی سروے 2022ء کے مطابق سال 2020ء میں اموات کی تعداد 186 تھی۔ 2020ء میں برطانیہ میں ایم ایم آر صرف 10 تھا۔ عالمی بینک کے مطابق ہمارا ملک اسے 2000ء میں 387 سے کم کرکے 2020ء میں 154 کرنے میں کامیاب رہا۔ سال 2000ء میں برطانیہ کا ایم ایم آر 11 تھا۔ پاکستان میں زیادہ ایم ایم آر کی کچھ وجوہات صحت کی سہولیات کا فقدان خاص طور پر دیہی علاقوں میں، خواتین کے خلاف تشدد، غربت، حفظانِ صحت کا خیال نہ رکھنا اور تعلیم کی کم سطح ہے۔

2020ء میں پاکستان میں تپ دق کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ افراد میں 250 سے 275 کے قریب تھی۔ یہ شرح اس حد کے اندر پچھلے 20 سالوں سے بہت آہستہ آہستہ نیچے جارہی ہے۔ عالمی ادارہِ صحت نے پاکستان کو زیادہ بوجھ والے ملک کے طور پر درجہ بندی کیا ہے (بھارت، بنگلہ دیش اور 27 دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہیں)۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے مقابلے میں یہ اعداد کم ہیں۔ برطانیہ میں، ٹی بی کے واقعات 1914ء میں 250 سے 275 کی حد سے کم ہوکر 2020ء میں صرف ایک لاکھ میں سے 150 افراد پر آگئے۔ ہم ٹی بی پر قابو پانے میں برطانیہ سے ایک صدی پیچھے ہیں۔

ترقی کا ایک اہم پہلو ایسا ہے جس میں ہمارے ملک نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے انتہائی غربت کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، جس کی پیمائش ’ڈالر یومیہ‘ کے بینچ مارک سے کی گئی ہے جو کہ 2017ء کی پرچیز پاؤر پیریٹی کی قیمتوں پر دراصل 2.15 ڈالر یومیہ ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان میں 1987ء انتہائی غربت کی شرح 67.3 فیصد سے کم ہوکر 2022ء میں 3.9 فیصد تک آگئی۔ برطانیہ میں انتہائی غربت 1987ء میں صرف 1 فیصد تھی، جو 2021ء میں کم ہو کر 0.3 فیصد رہ گئی۔ ہمارا ملک اس حوالے سے برطانیہ سے تو پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے اس معاملے میں ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

مندرجہ بالا بیان کردہ دیگر تمام اشاریوں کے لحاظ سے، پاکستان نے برصغیر کے دیگر ممالک کے مقابلے بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے سماجی اقتصادی اشاریوں سے مطمئن ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ تو کیا ہمیں اس حقیقت سے مطمئن ہوجانا چاہیے کہ ہم نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا؟


یہ مضمون 10 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں