بڑھتی مہنگائی، قرضے اور ماحولیاتی تبدیلی معیشت کو درپیش بڑے خطرات قرار

اپ ڈیٹ 12 جون 2023
وزیر خزانہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے خطرات کی نشاندہی بھی کی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
وزیر خزانہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے خطرات کی نشاندہی بھی کی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ اور درمیانی مدت کے میکرو اکنامک آؤٹ لُک کو درپیش اہم خطرات کی نشاندہی کی ہے، جس میں ریاست کے زیرانتظام چلنے والے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کی موجودہ مالیاتی اور آپریشنل کارکردگی، بڑھتے ہوئے سرکاری قرض، اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود اور شرح تبادلہ میں تبدیلی اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ کے حصے کے طور پر پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ایک بیان میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بھی اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ روس۔یوکرین جنگ، عالمی شرح نمو میں تنزلی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی معاشی ترقی اور مالیاتی تخمینوں کے لیے خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔

اگرچہ وزارت خزانہ کے سیاسی اور بیوروکریٹک سربراہان نے کسی سیاسی بےیقینی کا خدشہ ظاہر نہیں کیا تاہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے تعاون میں کمی یا آئندہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں ہونے والے عام انتخابات کو حال ہی میں پیش کیے گئے بجٹ اور میکرو اکانومی کے لیے پریشان کن عناصر کے طور پر دیکھا گیا۔

پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت حکومت کو سالانہ بجٹ اسٹیٹمنٹ میں مالیاتی خطرات کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے جن کا مالی سال یا درمیانی مدت کے دوران لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

میکرو اکنامک خطرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزارت خزانہ نے کہا کہ عالمی معیشت بڑے چیلنجز کے ساتھ 2023 میں داخل ہوئی ہے، جن میں سپلائی چین کے مسلسل مسائل، افراط زر کے دباؤ، طویل روس-یوکرین جنگ اور تباہ کن قدرتی آفات شامل ہیں۔

آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق عالمی نمو 2022 میں 3.4 فیصد سے کم ہو کر 2023 میں 2.8 فیصد رہنے کا امکان ہے، پھر آئندہ برس یہ بڑھ کر صرف 3 تک جائے گی۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ 2023 میں عالمی نمو سے متعلق پیش گوئی 19-2000 کی اوسط شرح سے بھی کم ہے جو کہ تاریخی اعتبار سے پست ترین تھی، مہنگائی سے لڑنے کے لیے اسٹیٹ بینک کے نرخوں میں اضافہ اور روس-یوکرین جنگ کا اثر اقتصادی سرگرمیوں پر پڑتا ہے، چین کی حالیہ ’ری اوپننگ‘ سے متوقع بحالی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

مہنگائی کی عالمی شرح 2023 میں تقریباً 7 فیصد اور 2024 میں 4.9 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو کورونا وبا سے قبل (19-2017) تقریباً 3.5 فیصد کی سطح سے اوپر ہے، بڑی معیشتوں میں اس صورتحال نے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر معیشتوں کو متاثر کیا ہے۔

دوسرا یہ کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران پاکستان کا کُل سرکاری قرضہ مالیاتی ذمہ داری اور قرض کی حد (ایف آر ڈی ایل) ایکٹ کے تحت جی ڈی پی کے 60 فیصد کی مقررہ حد سے تجاوز کر گیا ہے، یہ بنیادی طور پر مسلسل مالی خسارے کی وجہ سے ہوا ہے، جو کہ 2010 کے بعد سے جی ڈی پی کا اوسطاً 6 فیصد ہے، جس سے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

تیسرا یہ کہ حکومتِ پاکستان اور اس کے زیرانتظام چلنے والے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کے درمیان کثیر مالیاتی بہاؤ کو دیکھتے ہوئے، ان کی جاری مالیاتی اور آپریشنل کارکردگی مالیاتی خطرے کا باعث بن سکتی ہے، اسحٰق ڈار نے یہ نشاندہی ایس او ایز کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہی جو وسیع پیمانے پر ضروری سامان اور سروسز فراہم کرتے ہیں اور اس طرح پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

مزید برآں پاکستان کی 2021 کی قومی سطح پر طے شدہ شراکتوں نے 2015 اور 2030 کے درمیان اخراج میں مجموعی طور پر 50 فیصد کمی کا مشروط ہدف مقرر کیا ہے، جس میں ملک کے اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے 15 فیصد کمی اور 35 فیصد بین الاقوامی مالی معاونت سے مشروط ہے۔

علاوہ ازیں شعبہ توانائی اور ٹرانسپورٹ کے لیے عددی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کے مطابق 2030 تک تمام توانائی کا 60 فیصد قابل تجدید وسائل، بشمول پن بجلی سے حاصل کیا جائے گا اور 2030 تک فروخت ہونے والی تمام نئی گاڑیوں میں سے 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں ہوں گی۔

وزارت خزانہ نے انکشاف کیا کہ حکومت نے کوئلے کے نئے پلانٹس پر بھی پابندی لگا دی ہے اور درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اسی طرح پاکستان نے 2022 میں قومی موافقت کے منصوبے کا بھی اعلان کیا، جو رواں برس کے آخر میں جاری ہونے کی توقع ہے، اس کا مقصد درمیانی اور طویل مدتی موسمیاتی تبدیلی کے خدشات کو قومی پالیسیوں، حکمت عملیوں اور پروگراموں کا حصہ بنانا ہے۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ موجودہ مالی سال (23-2022) میں بھی عالمی اور مقامی سطح پر اہم واقعات دیکھنے میں آئے، جس نے اقتصادی منظرنامے کو متاثر کیا، گزشتہ برس کے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی جس کے نتیجے میں بنیادی انفرااسٹرکچر، زراعت اور معاش کو نقصان پہنچا۔

عالمی محاذ پر یوکرین میں جنگ نے سپلائی چین میں خلل ڈالا اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا جو کہ کورونا وبا کے بعد پہلے ہی بہت زیادہ ہیں، اس کے نتیجے میں افراط زر کے دباؤ اور پالیسی کی بلند شرح کے ماحول نے حکومت کے قرضوں کی لاگت کو اس سطح تک پہنچا دیا جس کی ادائیگی مشکل ہے، بڑے قرض دہندگان کے ساتھ اعتماد کے فقدان نے معاشی مشکلات میں اضافہ کیا، بیرون ممالک سے رقوم کی آمد تخمینوں سے کم رہیں۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے درمیانی مدت کے دوران محصولات میں اضافہ ضروری ہے اور اس لیے حکومت کاروبار دوست پالیسیوں کو برقرار رکھتے ہوئے ٹیکس وصولی کو بہتر بنائے گی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی سہولت کو یقینی بنائے گی جس سے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں بھی مدد ملے گی۔

وزیر خزانہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے خطرات کی نشاندہی بھی کی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے منصوبہ بندی اور ترقی کی وزارت کے تحت پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی قائم کی ہے۔

اس اتھارٹی کے پاس اس لین دین کو ریگولیٹ کرنے کا مینڈیٹ ہے جو وفاقی ایجنسیوں کو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے ذریعے بنیادی انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں مدد کرتا ہے اور ایسی لین دین کی منظوری دیتا ہے جو پبلک سیکٹر کو فنڈنگ کا حل پیش کرتے ہیں۔

یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہے کہ متعلقہ پروجیکٹس قومی اور شعبہ جاتی حکمت عملیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، ان پروجیکٹس کے لیے مالیاتی تجزیہ کرنا، پروجیکٹ کے خطرات کا اندازہ لگانا اور اس کا اندازہ لگانا، فنڈنگ کی ضروریات کا جائزہ لینا، پروجیکٹ کے تمام مراحل پر عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں کو مشورہ دینا اور ان کی مدد کرنا، مالیاتی ماڈلز کا تجزیہ اور اندازہ لگانا اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنا شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں