لکھاری کراچی میں کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی ہیں۔
لکھاری کراچی میں کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی ہیں۔

کراچی میں آنے والی قدرتی آفات کی تاریخ بھی اس کی اصل جغرافیائی صورت کی طرح کہیں گم ہوگئی ہے۔ بنگلہ زبان میں بائپر جوائے کا مطلب ’تباہی‘ ہوتا ہے اور اس نام کا ایک طوفان کراچی کا رخ کررہا ہے۔

عام کراچی والوں کی بات کی جائے تو وہ یہ کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ’عبد اللہ شاہ غازی یہاں کوئی آفت نہیں آنے دیں گے‘۔ لیکن شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ماضی میں کئی مرتبہ کراچی میں سمندری طوفان آچکے ہیں۔

ایسا ہی ایک طوفان 1944ء میں بھی آیا تھا جس نے تقریباً 10 ہزار افراد کو بے گھر کردیا تھا۔ اس وقت کراچی کی آبادی صرف 5 لاکھ تھی۔ اس وقت کراچی کا سمندری ماحولیاتی نظام (مرین ایکو سسٹم) برقرار تھا جس میں اوبھایو اور نئی نار نامی ساحلی جھیلیں (لگون)، 2 کریکس یعنی کورنگی کریک اور گزری کریک اپنی سب کریکس کے ساتھ موجود تھیں۔ اس کے علاوہ کراچی نے 1902ء اور 1964ء میں بھی طوفانوں کا سامنا کیا۔ لیکن آج شہر کے سمندری ماحولیاتی نظام کی بربادی دیکھ کر کراچی کی شہری منصوبہ بندی میں قدرتی آفات کے حوالے سے تیاریوں پر سوال اٹھتے ہیں۔

بدقسمتی سے کراچی میں ہونے والی تبدیلیوں نے آفات کا سامنا کرنے کی کم ہی گنجائش چھوڑی ہے۔ گزری کریک جو کبھی ایک پھلتا پھولتا ایکو سسٹم تھا آج ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں تبدیل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اب کورنگی کریک واحد آبی گزرگاہ بچی ہے۔

سب سے بڑی ساحلی جھیل اوبھایو بھی اب بوٹ بیسن نامی آلودہ پانی کے تالاب میں تبدیل ہوگئی ہے جس کے اطراف میں ہجرت کالونی اور شیریں جناح کالونی جیسی آبادیاں ہیں۔ مائی کولاچی پل نے اسے کھلے سمندر سے مزید منقطع کردیا جس کے نتیجے میں سمندری ماحولیاتی نظام اہم کام متاثر ہوا۔

اسی طرح 1950ء کی دہائی میں سینڈزپِٹ پر ’نئی نار‘ لگون کا سمندر سے رابطہ منقطع ہونے سے جوار بھاٹے کے قدرتی نظام میں خلل پڑا۔ یہ جوار بھاٹا ماضی میں کیماڑی کی بندرگاہ کو صاف رکھتا تھا۔ نتیجتاً اس علاقے اور خاص طور پر فش ہاربر کے اطراف آلودگی بڑھی جس کی وجہ سے پاکستان سے یورپی یونین کے ممالک میں مچھلی کی برآمد پر پابندی عائد ہوگئی۔

کراچی میں عام طور پر سالانہ اوسطاً 175 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگست 2020ء میں کراچی میں 223.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح گزشتہ سال بحریہ ٹاؤن میں 1050 ملی میٹر بارش ہوئی۔

بدقسمتی سے ہر سال مون سون بارشیں شہر میں تباہی مچا دیتی ہیں۔ ایشیا کے دیگر ساحلی شہروں کے مقابلے میں دیکھا جائے تو کراچی میں ہونے والی اوسط بارش بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر گووا اور ممبئی میں اوسطاً 3 ہزار اور 2 ہزار 200 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جبکہ جکارتا میں اوسطاً ایک ہزار 800 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ان شہروں میں اتنی زیادہ بارش ہونے کے باوجود کراچی کی طرح ہنگامی حالت پیدا نہیں ہوتی اور شہر کا نظام چلتا رہتا ہے۔ دوسری جانب کراچی میں تو 200 ملی میٹر بارش سے ہی ہنگامی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔

اگر کراچی کو شدید طوفان یا غیر معمولی بارشوں کا سامنا کرنا پڑجائے تو اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اوبھایو اور گزری کریک کی اب بیک واٹر کو سنبھالنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے جبکہ لیاری اور ملیر ندی کے بند راستے بھی شہر کے انفراسٹرکچر اور شہریوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

2001ء میں بھارتی گجرات میں آنے والا زلزلہ اس بات کی یاددہانی تھا کہ اللہ بند فالٹ پر کس قدر تباہی ہوسکتی ہے۔ تاریخ میں سندھ اور بھارتی گجرات کے ساحلی علاقوں نے اس فالٹ لائن پر زلزلے دیکھے ہیں۔ ان میں سے ایک زلزلہ 8ویں صدی میں آیا تھا جس کا مرکز جنگ شاہی تھا۔ اس کے نتیجے میں دیبل کی بندرگاہ ڈوب گئی تھی۔

اسی طرح یورپی سیاحوں کے مطابق 1668ء میں آنے والے زلزلے نے ’اورنگا بندرگاہ‘ اور ’سماوانی‘ میں تباہی مچائی۔ اس کے نتیجے میں 30 ہزار مکانات ڈوب گئے اور 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک اور زلزلہ 1819ء میں آیا جس نے پاک بھارت سرحد کے نزدیک بدین کے جنوب میں سندھڑی بندر میں تباہی پھیلائی۔ اس کے علاوہ کراچی سے ٹکرانے والا آخری سونامی 1945ء میں آیا تھا اور ایک برطانوی اخبار کے مطابق اس کے نتیجے میں مکران کی ساحلی پٹی پر تقریباً 4 ہزار ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

کراچی کی آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جو 1980ء میں 40 لاکھ سے بڑھ کر 2000ء میں 1 کروڑ تک پہنچ گئی تھی، جس کی وجہ سے شہر میں توسیع اور کنکریٹ کے ناقص ڈھانچے کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ آفات کے خطرے کو کم کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کرنے ہوں گے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہوگی۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اہم ترین چیز کراچی کے سمندری ماحولیاتی نظام کی بحالی ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی نہ صرف پاکستان کے معاشی حب کو خطرے میں ڈال دے گی بلکہ ملک کی 10 فیصد سے زائد آبادی کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

قدرتی آفات کے خطرے کے علاوہ، کراچی کو فضائی آلودگی کی صورت میں ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔ صنعتی سرگرمیاں، گاڑیوں کا دھواں اور پودوں کی کمی شہر کی بہت زیادہ آلودہ ہوا کا سبب بنتی ہیں۔ درختوں کی عدم موجودگی گرمی سے متعلق بیماریوں کے خطرے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔


یہ مضمون 13 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں