یونان کشتی حادثہ، متعدد پاکستانیوں کی اموات کا خدشہ، شناخت کیلئے ڈی این اے رپورٹس طلب

17 جون 2023
زندہ بچ جانے والے 104 افراد میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں—فائل فوٹو:اے پی
زندہ بچ جانے والے 104 افراد میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں—فائل فوٹو:اے پی

یونان کے علاقے پیلوپونیس کے قریب تارکین وطن سے بھری کشتی الٹنے کے 2 روز بعد خدشہ ظاہر کی جارہا ہے کہ حادثے میں لاپتا ہونے والوں میں متعدد پاکستانی بھی شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایتھنز میں سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ حادثے کے نتیجے میں 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 104 افراد زندہ بچ گئے، جن میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔

گزشتہ روز جاری ایک بیان میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں نے حادثے میں زندہ بچ جانے والوں سے ملاقات کی ہے، مرنے والوں کی شناخت تاحال نامعلوم ہے کیونکہ لاشیں ناقابل شناخت ہیں، یونانی حکام لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے۔

سفارت خانے کی جانب سے اپیل کی گئی کہ جن پاکستانیوں کو اندیشہ ہے کہ ان کے رشتہ داروں اس کشتی پر سوار تھے وہ شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے بھیجیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ لاپتا شخص کے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نمبر کے ساتھ اس شخص کے والدین یا بچوں کی کسی معروف لیبارٹری سے حاصل کردہ ’شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (ایس ٹی آر) ڈی این اے رپورٹ‘ پاکستانی سفارت خانے کے ای میل ایڈریس پر بھیجی جائے۔

متعدد اکاؤنٹس کے مطابق حادثے میں جاں بحق یا لاپتا ہونے والوں میں آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے شامل ہونے کا خدشہ ہے۔

آزاد کشمیر کے علاقے کوٹلی سے تعلق رکھنے والے محمد مبشر نے ’بی بی سی اردو‘ کو بتایا کہ ان کے چچا اور ایک قریبی رشتہ دار رمضان المبارک کے بعد اٹلی روانہ ہوئے تھے۔

انہوں نے پاکستان سے براستہ اٹلی، لیبیا پہنچنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاہم گزشتہ 2 روز سے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو پارہا تھا، انہوں نے مزید بتایا کہ رواں ماہ کوٹلی کے کیل سیکٹر سے بہت سے لوگ یورپ پہنچنے کی امید میں روانہ ہوئے تھے۔

ایک پاکستانی نژاد برطانوی صحافی راجا فریاد خان نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ خدشہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ان کے گاؤں کے 16 افراد اس حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سوارتھے۔

راجا فرید خان اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے اپنے 22 سالہ بھتیجے عدنان بشیر سے ملنے کے لیے برطانیہ سے یونان کے شہر کالاماتا گئے۔

کوٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص مقصود لنگڑیال نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ خدشہ ہے کہ ان کے 5 قریبی رشتہ دار اور ان کے علاقے کے 2 درجن دیگر افراد اس کشتی پر سوار تھے۔

انہوں نے کہا کہ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں میں شامل اُن کے گاؤں کے 2 افراد نے بتایا کہ اُس کشتی پر اُن کے علاقے کے تقریباً 30 افراد سوار تھے۔

کشتی پر سوار افراد کی درست تعداد کا تاحال پتا نہیں لگایا جاسکا، یونانی حکام نے غیر مصدقہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشتی پر سوار افراد کی کل تعداد 750 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

براڈکاسٹر ’ای آر ٹی‘ کی رپورٹ کے مطابق حادثے میں ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے کالاماتا میں ڈاکٹروں کو بتایا کہ اس نے کشتی میں 100 بچوں کو دیکھا تھا۔

حادثے کے بعد پولیس نے 15 جون کو انسانی اسمگلر ہونے کے شبہے میں 9 مصریوں کو گرفتار کرلیا، ان میں سے ایک اُس کشتی کا کپتان تھا جو تارکین وطن کو لے جا رہی تھی۔

متضاد بیانات

سانحے کا سبب بننے والے واقعات تاحال واضح نہیں ہیں، یونانی کوسٹ گارڈ اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ یورپ کی فرنٹیکس ایجنسی کے ایک نگران طیارے نے حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی کو منگل (13 جون) کی دوپہر کو دیکھا تھا جس کے بعد سے ان کی کشتیاں اور قریبی مال بردار بحری جہاز اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کشتی کھانا اور پانی لینے کے لیے کچھ دیر کے لیے رکی تھی لیکن کشتی پر سوار ایک شخص نے اصرار کیا کہ مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور کشتی پر سوار افراد اٹلی کی جانب سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

مقامی وقت کے مطابق 10 بج کر 40 منٹ پر کشتی کے عملے نے انجن کی خرابی کی اطلاع دی، کوسٹ گارڈ نے کہا کہ قریب ہی سمندر میں گشت کرنے والی کشتی نے مسئلے کی جانچ کے لیے فوری طور پر کشتی تک پہنچنے کی کوشش کی، 24 منٹ بعد گشت کرنے والی کشتی کے کپتان نے ریڈیو پیغام بھیجا کہ کشتی الٹ گئی ہے، 15 منٹ کے اندر اندر یہ کشتی ڈوب چکی تھی۔

تاہم یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ لوگوں سے بھری اس پرانی کشتی کو بحفاظت ریسکیو کرنے کے لیے یونانی کوسٹ گارڈ کو بروقت کارروائی کرنی چاہیے تھی، یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ کوسٹ گارڈ نے اس کشتی کو رسی کی مدد سے تیزی سے گھسیٹنے کی کوشش کی تھی۔

حکومتی ترجمان الیاس سیاکانتاریس نے گزشتہ روز تصدیق کی کہ کشتی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے رسی پھینکی گئی تھی لیکن تارکین وطن نے انکار کر دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں