گلگت بلتستان: پی ٹی آئی مزید تقسیم، نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا شیڈول جاری

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2023
گلگت بلتستان اسمبلی میں 13 جولائی کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا—فائل/فوٹو: امتیاز تاج
گلگت بلتستان اسمبلی میں 13 جولائی کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا—فائل/فوٹو: امتیاز تاج

گلگت بلتستان میں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے قبل حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مزید تقسیم ہوگئی ہے اور سابق وزیر خزانہ کی سربراہی میں تیسرا گروپ سامنے آگیا ہے جبکہ 13 جولائی کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔

پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر خزانہ گلگت بلتستان جاوید حسین منوا نے ہم خیال گروپ کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں پارٹی کے 10 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

جاوید منوا کا کہنا تھا کہ ہمارا فارورڈ بلاک نہیں ہم خیال گروپ ہے جو کئی ماہ سے سرگرم عمل رہا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد وزیراعلیٰ کے امیدوار راجا اعظم کو ووٹ دینے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ راجا اعظم کی نامزدگی پر ہونے والی مقامی سطح کی مشاورت میں پارلیمانی پارٹی کے ارکان شامل تھے جہاں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور ہمارا گروپ لاتعلق ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اختلافی نوٹ لکھ کر ہم چلے گئے تھے لیکن اب راجا اعظم کو ووٹ دینے کا فیصلہ مناسب مو قع پر کریں گے، تاہم کل وزیر اعلیٰ کے چناؤ کے روز ہم ووٹ دینے کے لیے اسمبلی پہنچے تھے اور اب صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صورت حال تبدیل ہوگئی ہے اس لیے ہم خیال گروپ اپنی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے گا اور اس سلسلے میں ہم مختلف جماعتوں سے رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھیں گے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جائے، گلگت بلتستان کے سیاسی حالات تبدیل ہو رہے ہیں اس لیے ہمیں نئے فیصلوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں پارٹی کی جارحانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں، عمران خان کے سامنے بھی گلگت بلتستان کے امور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں، اب بھی پارٹی نامزدگی پر ہم خیال گروپ کو شدید تحفظات ہیں اور مستقبل کے معاملات کو پیش نظر رکھ کر حکمت عملی سامنے لائیں گے۔

خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی تین واضح گروپس میں تقسیم ہوگئی ہے، سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے صدر خالد خورشید کی قیادت سے الگ ہو کر پہلا گروپ گزشتہ روز حاجی گلبر خان کی سربراہی میں سامنے آیا تھا اور اب تیسرا گروپ جاوید حسین منوا کی قیادت میں سامنے آیا ہے۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کا شیڈول جاری

دوسری جانب گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ نے سپریم اپیلٹ کورٹ کی منظوری سے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے نیا شیڈول جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق 12 جولائی کو دن 12 بجے کاغذات نامزدگی جمع اور اسی دن شام 4 بجے جانچ پڑتال ہوگی، 13 جولائی کو صبح 10 بجے تک امیدوار دستبردار ہوسکے گا اور دو گھنٹے کے وقفے کے بعد 12 بجے وزیر اعلیٰ کے لیے رائے شماری ہوگی اور اس کے فوری بعد نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔

صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ مذکورہ شیڈول عدالت کی منظوری سے جاری ہوا ہے، اس سلسلے میں آج صبح عدالت میں پیش ہوکر شیڈول کی منظوری لی گئی اور پھر اس سے جاری کر دیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صوبائی صدر اور اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کی پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں وزیر اعلیٰ کے لیے متفقہ امیدوار سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کر لیا گیا کہ تینوں جماعتوں کی مرکزی قیادت جس پارٹی کے رکن اسمبلی کو امیدوار نامزد کرے گی اسی کی حمایت کی جائے گی۔

ایک سوال پر امجد ایڈووکیٹ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ملک دشمن سوچ رکھنے والی جماعت پی ٹی آئی کی بیخ کنی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اسی وجہ سے تحریک انصاف کئی حصوں میں بٹ گئی ہے اور ان کے ارکان ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔

خیال رہے کہ 4 جولائی کو جسٹس ملک عنایت الرحمٰن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس محمد مشتاق پر مشتمل گلگت بلتستان کی چیف کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل امجد حسین نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ خالد خورشید کی جمع کرائی گئی ڈگری کی لندن یونیورسٹی سے تصدیق نہیں ہوئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اسے جعلی قرار دیا ہے۔

ایچ ای سی نے عدالت کو بتایا تھا کہ یونیورسٹی آف لندن کی جانب سے وزیر اعلیٰ کی ڈگری کو جعلی قرار دینے کے بعد اس نے خالد خورشید کو جاری کی گئی ایل ایل بی کی ڈگری واپس لے لی ہے۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے خالد خورشید کو 5 سال کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔

بعد ازاں گزشتہ روز گلگت بلتستان کے چیف جج سپریم اپلیٹ کورٹ نے پی ٹی آئی کے رکن شاہ بیگ کی درخواست پر وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے جاری شیڈول ملتوی کرنے کا حکم دے دیا تھا، دوسری طرف اسپیکر کی جانب سے شیڈول جاری ہونے کے باوجود پولیس نے ارکان کو ایوان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی اورعمارت سیل کردی تھی۔

عدالت نے واضح کیا تھا کہ گلگت بلتستان اسمبلی رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2017 کے رول (تھری) کے مطابق الیکشن کے لیے انتخابی شیڈول کی بذریعہ ٹیلی وژن، اخبارات، ریڈیو اور گزٹ پبلیکیشن میں تشہیر ضروری ہے، علاوہ ازیں اراکین اسمبلی کو فوری ڈاک کے ذریعے مطلع کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا تھا کہ نئے قائد ایوان کے انتخاب کو عمل میں لانے کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس کو بم کی افواہ پھیلا کر ملتوی کرا دیا گیا ہے، جس کا مقصد ہمارے ارکان کو خرید کر مینڈیٹ چوری کرنے کی کوشش ہے۔

اپنے ویڈیو پیغام میں سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بدھ کو قائد ایوان کے انتخاب کے لیے جو اجلاس بلایا گیا تھا اسے جبری طور پر ملتوی کرانے کی کوشش ہو رہی ہے اور عدالت سے تیزی سے اجلاس ملتوی کرانے کے لیے حکم امتناع لینے کی بھی اطلاع ہے تاکہ ہفتے تک انتخابی عمل التوا میں ڈال کر ہمارے اراکین کو پہلے خریدا جاسکے اور ناکامی ہوئی تو مجھ سمیت چیدہ چیدہ ارکان اسمبلی کو گرفتار کرکے تحریک انصاف کی عددی اکثریت تبدیل کی جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں