اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے نئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے پر پابندیوں کے سبب چین سے سولر پینلز اور انورٹرز کی گزشتہ مالی سال 2023 کے دوران درآمدات صرف ایک ارب ڈالر رہیں، جو مالی سال 2022 کے دوران 2.4 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار آخری بار مالی سال 2017 میں دیکھے گئے تھے، تاہم صارفین میں توانائی کے متبادل ذرائع کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگہی کے بعد مالی سال 2019 میں سولر پینلز کی درآمدات ایک ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔

مرکزی بینک نے غیر ملکی کرنسی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جولائی 2022 سے درآمدی اشیا کی طلب کم کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے تھے، جس سے سولر پینلز اور انورٹرز کی درآمد میں مسائل پیدا ہوئے۔

تاجر رہنماؤں کے مطابق تاجروں اور درآمد کنندگان کو گزشتہ 2 ماہ سے نئی ایل سیز کھولنے اور بندرگاہوں پر سیکڑوں کنٹینرز کی کلیئرنس میں مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ تجارتی بینک شمسی توانائی کے شعبے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پاکستان سولر ایسوسی ایشن (پی ایس اے) کے سینئر وائس چیئرمین محمد ذاکر علی نے بتایا کہ ان کے اراکین کی کنسائنمنٹس جن کی تجارتی بینکوں سے پیشگی منظوری کے بعد کارروائی کی تھی، بندرگاہوں پر کلیئرنس کی منتظر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ درآمدات پر پابندیوں کے نتیجے میں تجارتی بینک درآمدکنندگان سے لیے گئے کیش مارجن سے منافع کما رہے ہیں جبکہ کنٹینرز وقت پر واپس نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی شپنگ لائنز ڈیٹینشن چارجز وصول کریں گی۔

محمد ذاکر علی نے کہا کہ اس کے نتیجے میں صارفین کو سولر پینلز اور انورٹرز کی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن نے 6 جولائی کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے کہا ہے کہ وہ شمسی توانائی اور اس سے منسلک آلات کے پہلے سے کیے گئے درآمدی معاہدوں میں سہولت فراہم کریں تاکہ ڈیمریج چارجز کی مد میں بھاری مالی نقصان سے بچا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمرشل بینکوں کے مطابق سولر انرجی سیکٹر اب بھی غیرضروری مصنوعات کی فہرست میں شامل ہے، انہوں نے اسحٰق ڈار سے مطالبہ کیا کہ وہ کمرشل بینکوں کو درآمدکنندگان کے لیے سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کریں تاکہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی انڈسٹری کی مدد ہوسکے۔

محمد ذاکر علی نے بتایا کہ حکومت نے ملک میں سولر پینلز اور انورٹرز کی مینوفیکچرنگ کے فروغ کے لیے درست قدم اٹھایا ہے تاہم موافق طویل المیعاد پالیسی، کم خطرات اور محفوظ ماحول سے ہی جوائنٹ وینچرز کے لیے بیرونی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔

اس وقت سولر پینلز کی درآمد پر کوئی ڈیوٹی اور ٹیکس نہیں لیا جارہا تاہم انورٹرز پر 21 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے۔

محمد ذاکر علی کا کہنا تھا کہ پنجاب سندھ اور خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں میں زیادہ سولر پینلز اور انورٹرز فروخت ہو رہے ہیں جبکہ شہری علاقوں میں فروخت کا حصہ 25 فیصد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں