لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کی مدت کے آخری 30 دنوں کی الٹی گنتی شروع ہونے کو ہے۔ اس کے بعد وفاق، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ایک نگران سیٹ اپ کم و بیش ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار سنبھالے گا اور وہ ہوگا ملک میں انتخابات کا انعقاد۔

اسی طرح کی نگران حکومتیں صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے سے موجود ہیں کیونکہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل ان کی مدت ختم ہونے سے مہینوں پہلے ہی کردی گئی تھی۔ پی ٹی آئی (اور اس کے اتحادیوں) کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں پڑنے والا دباؤ ملک بھر میں قبل از وقت انتخابات کا باعث بنے گا۔

یہ چال چال ناکام رہی، کیونکہ ملک گیر انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا جاسکا۔ درحقیقت سپریم کورٹ بھی ان دو صوبوں میں آئینی طور پر مقررہ مدت کے دوران انتخابات کروانے سے قاصر رہی۔

ججوں کے ایک منتخب گروپ کے حوالے سے متعدد واقعات اور خاص طور پر مخصوص ججوں کے متنازعہ فیصلوں کے بعد یہ واضح طور پر ایک کمزور عدالت کا نتیجہ تھا۔ ان ججوں کو خصوصی طور پر چیف جسٹس کے ساتھ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لیے ان کی تشکیل کردہ بینچوں میں شامل ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔

ان فیصلوں نے عدم اعتماد پیدا کیا اور حالیہ مہینوں میں متعدد مواقع پر عدالت عظمیٰ میں اس وقت تقسیم نظر آئی جب ’اختلاف‘ کرنے والے ججوں نے فیصلوں پر نوٹس لکھے، اور وہ بعد میں منظر عام پر آئے۔ ان نوٹس میں انہوں نے معزز چیف جسٹس کے ساتھ بینچوں کی تشکیل اور فیصلوں پر اختلاف کیا تھا۔

ایک متحد عدالت عظمیٰ شاید فوجی اسٹیبلشمنٹ کے غیر ضروری اثر و رسوخ کو روکنے میں زیادہ کامیاب ہو سکتی تھی۔ اس طرح قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی ذمہ داری صرف ایک ہائبرڈ ایگزیکٹو پر نہیں بلکہ ریاست کے تمام اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

آج ہماری صورت حال یہ ہے۔ تو آنے والے ہفتوں میں کیا کچھ ہونا ہے؟ یعنی اب سے لے کر نگران حکومت کے قیام، انتخابات کے انعقاد اور اس سے آگے؟ آئی ایم ایف پیکج پر بورڈ کی منظوری اب ایک رسمی کارروائی ہی رہ گئی ہے جس سے ڈیفالٹ کا امکان کم ہو رہا ہے اور اب سب کی نظریں انتخابات پر ہوں گی۔

یہاں کچھ ممکنہ واقعات اور حالات کا ذکر کرتے ہیں جن پر غور کرنا چاہیے۔ نگران وزیر اعظم اور کابینہ کا انتخاب اور کچھ دیگر پیش رفت انتخابی حوالوں سے پی ٹی آئی کے انتخابی امکانات کے متعلق اشارہ دیں گی۔ اس میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو انتخابی مہم کے لیے ملنے والی نقل و حمل کی آزادی بھی شامل ہوگی۔

اگر نگران حکومت میں وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے دور اقتدار کے دوران اس کے ہاتھوں نقصان کا سامنا کرنا پڑا، تو یہ سمجھنا ٹھیک رہے گا کہ انہیں پی ٹی آئی سے بہت کم ہمدردی ہوگی اور وہ اس کی مدد کے لیے کچھ نہیں کریں گے یا پھر یوں کہہ لیں کہ وہ غیر جانبدار رہیں گے۔

یہ پی ٹی آئی کے لیے اچھا نہیں ہوگا، کیونکہ 2018ء کے انتخابات کے برعکس اب اس جماعت کو ایک خاص حلقے کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور طاقتور حلقوں سے اپنی کھلی دشمنی کے نتیجے میں خود کو الگ تھلگ کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے لیے اپنے ووٹ بینک کو استعمال کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

اب تک پارٹی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ یہ ناقدین عدالت کے مختلف احکامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے کہ انحراف سے متعلق شق کی تشریح جس پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آئینی شق کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ اسے ’دوبارہ لکھا گیا ہے‘۔ ایک اور معاملہ عمران خان کو اس وقت کے موجودہ اور ممکنہ مقدمات میں ملنے والی ضمانت کا بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی۔

نگران حکومت کی مدت کے دوران ہی ستمبر کے وسط میں چیف جسٹس کی کرسی پر موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آجائیں گے۔

اگر وزیراعظم 12 اگست کو پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو انتخابات 90 دن کے اندر کروانا ہوں گے اور اگر اسمبلی اپنے 5 سال پورے کرے گی تو 60 دن میں انتخابات کروانا ہوں گے۔ یعنی جلد از جلد بھی انتخابات اکتوبر میں ہی ہوسکیں گے۔

میرے خیال میں یہ انتخابات نومبر کے وسط میں ہونے کا زیادہ امکان ہے، اس وقت تک نئے چیف جسٹس کو تقریباً 2 ماہ ہوچکے ہوں گے اور موجودہ چیف جسٹس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ نئے چیف جسٹس اور بینچوں سے مختلف رویے کی توقع رکھتے ہیں۔

لہٰذا، نچلی عدالتوں کے نااہلی اور ممکنہ قید جیسے منفی فیصلوں کی صورت میں اپیل کا نتیجہ کچھ مختلف ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ قیاس آرائیاں ہیں اور ممکن ہے کہ حقائق کوئی مختلف کہانی سنائیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم بھی ستمبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ میں قواعد و ضوابط کے بارے میں واضح نہیں ہوں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا موجودہ وزیر اعظم اگر چاہیں تو نگران حکومت کے آنے سے پہلے انہیں توسیع کی پیشکش کرسکتے ہیں یا نہیں اور آیا ڈی جی آئی ایس آئی اسے قبول بھی کریں گے یا نہیں۔

نجی طور پر تو حکومتی اتحاد کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن ہے۔ سچ پوچھیں تو اس تبدیلی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ داخلہ پالیسی کا انچارج افسر تو ڈی جی سی ہوتا ہے جو آئی ایس آئی سربراہ سے ایک درجہ نیچے ہوتا ہے اور یہاں تک کہ اگر ڈی جی آئی کو تبدیل کر دیا جاتا ہے تو بھی ادارے میں انتخابات تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی معمول کے مطابق کام ہوگا۔

بلاشبہ اس وقت سب سے بڑا سوالیہ نشان اس بارے میں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کب پاکستان واپس آئیں گے اور کیا انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وقت پر عدالتوں سے بری کر دیا جائے گا۔ اگر وہ انتخابات میں حصہ لے کر جیت جاتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شہباز شریف کا بطور وزیر اعظم بہت مختصر دور بس یہیں تک تھا؟ یا نواز شریف کوئی مختلف کردار سنبھالیں گے اور چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیں گے؟

یقیناً اس کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے کہ اس کے نامزد امیدوار کو وزارت عظمیٰ کی کرسی مل جائے۔ اگر انتخابات کا نتیجہ اس کے برعکس ہوا تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ابھی صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند ماہ بہت دلچسپ ہونے والے ہیں۔


یہ مضمون 9 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں