خیبرپختونخوا: ضلع کرم میں قبائلی جھگڑے میں ہلاکتوں کی تعداد 11 ہوگئی

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2023
ضلع کرم میں مزید تنازع روکنے کے لیے پولیس نفری تعینات کردی گئی ہے—فوٹو: جاوید حسین
ضلع کرم میں مزید تنازع روکنے کے لیے پولیس نفری تعینات کردی گئی ہے—فوٹو: جاوید حسین

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں دو قبائل کے درمیان زمین کے ایک ٹکڑے پر جاری جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔

خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں زمین کے تنازع پر دو قبائل کے مابین پانچ روز سے جھڑپیں جاری ہیں جہاں مزید دو افراد جاں بحق ہونے کے بعد مرنے والوں کی تعداد 11 ہوگئی جبکہ 67 سے زائد زخمی ہوگئے۔

متاثرہ علاقوں کے رہائشی سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے اشیائے خورونوش، ادویات اور ایندھن کی مسلسل قلت کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں اور معمول کی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے۔

ایک روز قبل ضلع کرم میں امن و مان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے خلاف اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور سمیت مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر قیصر عباس بنگش نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ تاحال 67 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

ضلع کے علاقوں بشمول پیواڑ، گیدو، بالش خیل، خار کلے، صدہ اور پاڑہ چمکنی کڑمان کے علاوہ مقبل اور کنج علیزئی میں جھڑپیں جاری ہیں جس میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال پاراچنار اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال صدہ لایا گیا جن میں متعدد زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

ادھر ڈپٹی کمشنر سید سیف الاسلام شاہ کا کہنا ہے کہ ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں رکوانے کے لیے قبائلی عمائدین کے ساتھ مل کر کوششیں جاری ہیں اور مختلف علاقوں میں فائر بندی بھی کرائی گئی ہے، لیکن بار بار فائر بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کے باعث تاحال جھڑپیں جاری ہیں۔

وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز ساجد طوری کا کہنا ہے کہ وہ خود فائر بندی کے لیے جرگوں اور مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں، تاہم بار بار معاہدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے حالات معمول پر نہیں آرہے ہیں۔

ساجد طوری نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ ضلع کرم میں جھڑپیں رکوانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو عناصر بار بار فائر بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ان کے خلاف فوری کارروائی ضروری ہے۔

وفاقی وزیر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں قیام امن کی کوششیں جاری ہیں اور آج اس سلسلے میں کمشنر کوہاٹ محمد علی شاہ، ڈی آئی جی کوہاٹ ڈویژن، جی او سی نائن ڈویژن پاراچنار پہنچ گئے ہیں اور جلد ہی امن قائم ہوگا اور مورچوں میں فورسز کے دستے تعینات کیے جائیں گے۔

ضلع کرم میں جھڑپوں کے باعث مرکزی شاہراہ سمیت سڑکوں پر آمد و رفت تقریباً بند ہوگئی ہے اور ضلع میں بنیادی اشیا، ایندھن اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

آج پاراچنار پریس کلب کے سامنے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے دھرنا دیا جہاں ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نوشی بنگش نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ پانچ روز سے کرم میں جھڑپیں جاری ہیں اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور حکومت کو کوئی پروا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فورا ایکشن نہ لیا تو ایمل ولی خان کی قیادت میں پورے پاکستان میں احتجاجی سلسلہ شروع کیا جائے گا۔

سماجی رہنما تنویر حسین نے بتایا کہ علاقے میں خوف و ہراس ہے، ہر طرف راکٹوں اور میزائلوں کی آواز گونج رہی ہے، آمد و رفت کے راستے بند ہونے کی وجہ سے علاقے میں ادویات، اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

—فوٹو: جاوید حسین
—فوٹو: جاوید حسین

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ علاقے کے لوگوں پر رحم کرکے خونریز لڑائی کو جلد از جلد روک لیں اور انسانیت کو بچائے۔

درین اثنا ہیومن رائٹس کیشن آف پاکستان نے خونی تنازع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی تنازعات میں عسکریت پسندی میں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

کمیشن نے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر تمام قبائلی تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو بحال کرنا چاہیے۔

ضلع کرم میں فوج اور ایف سی طلب

خیبرپختونخوا کی نگران حکومت نے ضلع کرم میں جاری کشیدگی کے پیش نظر فوج اور ایف سی طلب کرلی۔

صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق ضلع کرم میں امن و امان کی صورت حال معمول پر آنے تک فوج تعینات رہے گی۔

محکمہ داخلہ نے بتایا کہ متنازع زمین پر ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے، تنازع کے خاتمے کے لیے لینڈ کمیشن نےگزشتہ ماہ دو مرتبہ ضلع کرم کا دورہ کیا تھا، لینڈ کمیشن کا رواں ہفتے تیسرا دورہ کرنے کا منصوبہ ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ جھوٹی خبریں پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا جبکہ کوہاٹ، اورکزئی اور ہنگو سے 30 رکنی جرگہ بھی کرم منتقل ہوگیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ نے اپیل کی کہ کرم کے عوام تنازع کے حل کے لیے ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دیں۔

محکمہ داخلہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ زمینی تنازع پر جاری کشیدگی پر قابو پانے کے لیے 30 رکنی جرگہ تشکیل دیا گیا ہے اور دونوں اطراف سے جنگ بندی کے لیے حکومتی کمیٹی کرم پہنچ گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ صوبائی حکومت نے محکمہ ریونیو کو زمینوں کے حوالے سے جامع رپورٹ مرتب کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں