وزیراعظم سے آزادی اظہار پر سوال پوچھنے والے صحافی کی برطرفی کی خبر کی حکومتی تردید

11 جولائ 2023
مریم اورنگزیب نے منگل کو پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے بات کی—فوٹو: ڈان نیوز
مریم اورنگزیب نے منگل کو پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے بات کی—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے وزیراعظم شہباز شریف سے آزادی اظہار سے متعلق سوال پوچھنے پر پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن (پی ٹی وی) سے صحافی کو’آف ایئر کیے جانے’ کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعظم چوہدری سرکاری ٹی وی کا ملازم نہیں ہے۔

مریم اورنگزیب نے بیان میں مذکورہ صحافی کے حوالے سے کہا کہ ’وہ پی ٹی وی کے مسائل پر مبنی تجزیہ کاروں کے پول کا صرف ایک رکن ہے، انہیں اس پول سے ہٹایا گیا اور نہ ہی انہیں چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے، ان سے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی گئی‘۔

وفاقی وزیراطلاعات کی وضاحت سے قبل مقامی میڈیا میں شائع رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ اعظم چوہدری کو ’پی ٹی وی سے برطرف کیے جانے سے آگاہ کیا گیا‘ ہے، اعظم چوہدری لاہور پریس کلب کے صدر ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون میں شائع خبر کے مطابق اعظم چوہدری کو لاہور میں پریس کانفرنس میں شرکت کے بعد یہ پیغام موصول ہوا جہاں انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملک میں ’اظہار آزادی کے مواقع کم‘ ہونے سے متعلق سوال کیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اعظم چوہدری سے وزیراعظم سے دو حصوں میں سوال پوچھا تھا، جس میں انہوں نے ملک بھر میں میڈیا پر پابندیوں کی نشان دہی کی تھی اور پوچھا تھا کہ یہ پابندیاں کب ختم ہوں گی۔

وزیراعظم نے صحافی کو جواب میں پابندیوں کی تردید کی تھی لیکن سوال مریم اورنگزیب کی طرف منتقل کردیا تھا۔ ایکسپریس ٹریبیون نے رپورٹ میں کہا تھا کہ اعظم چوہدری نے بتایا کہ انہیں ’آگاہ کیا گیا کہ وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی وی گورنر ہاؤس سے پینل پروگرام کرے گا جہاں وہ بھی سجاد میر اور سلمان غنی کے ساتھ شریک ہوں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ انہیں ’آف ایئر کیا گیا ہے اور کہا کہ وہ پی ٹی وی کا حصہ نہیں رہے‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’صحافی نے کہا کہ وہ پروگرام باخبر کی ابتدائی ٹیم کا حصہ تھے جو گزشتہ برس شروع ہوا تھا، آخری اطلاع کے مطابق وہ پی ٹی وی کے ساتھ تھے اور باقادہ طور پر ان کے ساتھ نہیں تھے کیونکہ انہیں تحریری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا تھا اور وہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر تھے اور اور انہیں تحریری طور پر مطلع کرنے کے پابند نہیں ہیں‘۔

وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ رپورٹ غلط اور بے بنیاد‘ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعظم چوہدری تاحال بدستور ’تجزیہ کاروں کے پول کا حصہ‘ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جب مذکورہ صحافی کو مدعو کیا گیا تھا تو ان کے خیالات اور آرا سے آگاہ تھی۔

وفاقی وزیر نے کہا ’اگر حکومت اس کی آواز یا سوال دبانا چاہتی تو انہیں دعوت اور سوال پوچھنے کا موقع نہیں دیا جاتا، وزیراعظم نے ان کے سوال کا تفصیل سے جواب دیا، میں نے بھی ان کے سوال کا جواب دیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلی پی ٹی آئی حکومت اور اس کے ’فاشسٹ‘ وزیراعظم، جنہیں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ’پریس فریڈم پریڈیٹر‘ قرار دیا تھا، مگر وزیراعظم شہباز شریف اور موجودہ حکومت ’میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی‘ ہے۔

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت صرف مخصوص رپورٹرز اور صحافیوں کو ان کے فاشسٹ وزیراعظم کی پریس کانفرنس میں شرکت کی اجازت دیتے تھے، موجودہ حکومت یقینی بناتی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی پریس کانفرنس تمام رپورٹرز اور صحافیوں کے لیے اوپن ہو‘۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹس میں حکومت کا مؤقف نہیں لیا گیا، ’یہ غیرپیشہ ورانہ اور صحافتی اخلاقیات اور معیار کے خلاف ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں