چین قرضے رول اوور نہ کرتا تو پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہوتا، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2023
—فوٹو: پی آئی ڈی
—فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور چیمبرآف کامرس کے ارکان سے گفتگو کی—فوٹو: اسکرین گریب
وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور چیمبرآف کامرس کے ارکان سے گفتگو کی—فوٹو: اسکرین گریب

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چین نے بروقت 5 ارب ڈالر قرض رول اوور کیا ورنہ ہم ڈیفالٹ کرچکے ہوتے یا انتہائی مشکل حالات کا شکار ہوتے جبکہ عالمی مالیاتی ادارہ (ائی ایم ایف) سے معاہدے کا امریکا نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں چیمبرآف کامرس کے ارکان اور معروف کاروباری شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ صنعت کاری، زراعت اور تجارت کے لیے جو بھی ممکن ہو وہ کرے، یہ کوئی احسان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمیں جن مشکل حالات کا سامنا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، اللہ کا فضل و کرم ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک مشترکہ ٹیم ورک کے ذریعے پروگرام منظور ہوگیا اور کل رات آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو کال کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ بلنکن نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرض منظوری کا خیرمقدم کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ حکومت نے بدقسمتی سے امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کو ناعاقبت اندیشی اور انتہائی محدود سوچ کی وجہ سے کاری ضرب لگائی تھی۔

شہباز شریف نے کہا کہ مخلوط حکومت نے تعلقات ہموار کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا، پچھلے 15 مہینوں میں ہم نے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات جو خراب ہوئے تھے وہ ٹھیک کرنے اور معمول پر لانے کے لیے دن رات ایک کیا ہے، وزیرخارجہ کی کوششیں شامل ہیں، وزارت خارجہ کی کوششیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امریکا نے اس کو نہ صرف خیرمقدم کیا ہے بلکہ وہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی مثال ہے جو ہمیں اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ اپنی ذاتی مفادات ہیں ان کو قومی مفادات کے تحت رکھنے چاہئیں، بدقسمتی سے ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفاد قربان کردیا گیا اور اس کے نقصانات سب کے سامنے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے فون پر بتایا کہ ماضی میں جو معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوئیں اور اعتماد کا فقدان ہوا اس سے بڑی مشکلات پیدا ہوئیں اور اس سے خلا بڑھ گیا اور معاملات بڑے مشکلات میں چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے بتایا کہ بورڈ میں یہ بات اٹھائی گئی کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کی تو کیا گارنٹی ہے کہ یہ معاملہ اب چلے گا تاہم بورڈ کو بتایا وزیراعظم سے پیرس میں بات ہوئی ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی پوری پاسداری کریں گے۔

’بجلی کی قیمت بڑھانا آئی ایم کی شرط تھی‘

شہباز شریف نے کہا کہ میں نے ان کو یقین دلایا کہ معاہدے پر عمل درآمد ہوگا اور ہمیں اس معاہدے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ہم نے معاہدے کے حوالے سے کوئی چیز نہیں چھپائی اور قوم کو سب کچھ صاف بتا دیا ہے اور بجلی کے نرخون میں بدقسمتی سے ہمیں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے اور یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے ہی لیکن گردشی قرضہ ہم کہاں لے جائیں خسارہ کہاں سے پورا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ لائن لاسز ہیں، ٹرانسمیشن لاسز ہیں، بلنگ کے مسائل ہیں لیکن بجلی چوری کون کرتا ہے، حکومت کی جہاں اپنی غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور اہلکار ملی بھگت سے اس ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہیں تو آپ نے مل کر ٹھیک کرنا ہے کہ فلاں آدمی چوری کر رہا ہے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے لاہور چیمبر کے ارکان سے کہا کہ نئے ٹیکسز کی بھرمار کی بات کر رہے ہیں وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن جو ٹیکسز آپ نے مان لیے وہ ادا نہیں کر رہے ہیں تو پھر ایڈیشنل ٹیکسز نہیں لگیں گے تو کیا ہوگا۔

’چین نے 5 ارب ڈالر رول اوور کیا‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی تو اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 14 سے 15 ارب ڈالر تھے اور تقریباً اسی ہدف پر پہنچے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں چین نے پچھلے 3،4 مہینوں میں 5 ارب ڈالر رول اوور کیے، کمرشل قرضے رول اوور کرنا آسان بات نہیں ہوتی کیونکہ ان قرضوں میں کمرشل قرضے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بغیرلگی لپٹی کے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ 5 ارب ڈالر اس وقت رول اوور نہ ہوتے تو خدانخواسہ ڈیفالٹ کرچکے ہوتے یا بہت ہی مشکل حالات میں ہوتے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کے لیے کاٹن 100 فیصد درآمد کرتے ہیں لیکن برآمدات میں پاکستان سے کہیں آگے ہے، ہماری کاٹن ایک زمانے میں ایک کروڑ 40 لاکھ بیلز پر چلی گئی تھی لیکن پچھلے سال 30 یا 40 لاکھ بیلز پر رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری مشترکہ ناکامی ہے، حکومت کی ناکامی ہے اور ہمیں مسابقت کا سامنا کرنا گوارا نہیں ہے، جدید تیکنیک اور ٹیکنالوجی لانے کے لیے پیسہ لگتا ہے وہ گوارا نہیں ہے، حکومت کی جانب سے کاروبار کو جو تعاون درکار ہے وہ نہیں ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ 90 کی دہائی میں نواز شریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے معاشی اصلاحات کیں، کرنسی اوپن کیا، کاروباری افراد پر اعتماد کیا، بھارت کے اس وقت وزیرخزانہ منموہن سنگھ نے ان اصلاحات کو کاپی کیا کہ پاکستان کا پروگرام بھارت میں لے کر آنا ہے اور کیا کیونکہ ان کی معیشت ہم سے زیادہ خراب تھی۔

کاروباری شخصیات سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ان سے آگے تھے لیکن آج بھارت کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں، ہمیں بڑی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، منافع کمانا آپ کا حق ہے لیکن وہ منافع مزید صنعتوں، سرمایہ کاری اور روزگار پر استعمال ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں قربانی دینا ہوگی اور بنیادی اصلاحات کرنے ہوں گے، اگر برآمدات نہیں بڑھائیں گے تو کباڑا ہوجائے گا، چھوٹے پیمانے کے کاروبار کو کئی پوچھتا نہیں حالانکہ جاپان، جرمنی اور جنوبی کوریا سمیت ہر جگہ ایس ایم ایز بڑی صنعتوں کا ڈرائیونگ انجن ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 3 ارب ڈالر کے قرضے جو بڑے بڑے ادارے لے کر گئے ہیں وہ جواب دیں کہ برآمدات میں انہوں نے کتنی بڑھوتری کی، چیمبر میں ریسرچ سینٹر بنایا گیا تھا لیکن سب ختم ہوگیا اور وہاں مکمل طور پر سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چیلنج قبول کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور موقع نہیں ہے اور ہم ان حالات کو تبدیل کر سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ محنت اور قربانیوں کے بغیر نہیں ہوگا اور ہمیں قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہوگا، جس کے لیے سب سے پہلے حکومت اور صاحب ثروت لوگوں کو کام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کئی منصوبے لگائے اور مکمل کیے، جن میں بجلی کے منصوبے ہیں لیکن کئی ایسے منصوبے ہیں جو مکمل نہیں ہوئے حالانکہ جھنگ میں شروع ہونے والا منصوبہ 2019 میں مکمل ہونا تھا لیکن آج تک مکمل نہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ 6 سال میں جو 30، 40 ارب روپے اضافہ ہوئے ہیں، اس کا کون ذمہ دار ہے، اس پر ریسرچ اور کئی اور بے پناہ کام ہوسکتے ہیں لیکن اب ہمیں اپنی انوسٹی گیشن کرنی ہوگی کیونکہ یہ 40 ارب تک روپے حرام چلے گئے کیونکہ اس حکومت کو یہ تسلیم نہیں تھا کہ نواز شریف کا منصوبہ مکمل ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کھڑے ہوں اور چیلنج قبول کریں، میرا ایمان ہے کہ ان تمام تر مشکلات کے باوجود حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں، یہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ اس ملک کے تمام ادارے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر پورا تعاون اور کام کرے تاکہ پاکستان آگے بڑھے، اس ملک کو چلانا ہے تو پیار محبت سے سیاست دان، بیوروکریٹس، عدلیہ اور یہ ادارہ مل کر قوم کی طے شدہ منزل کو لے کر چلیں۔

تبصرے (0) بند ہیں