پاکستان ریفائنری، ایئر لنک، شیل پاکستان کو خریدنے کیلئے کوشاں

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2023
پی آر ایل  ملک میں کام کرنے والی پانچ ریفائنریوں میں سے ایک ہے — تصویر: شیل/فیس بک
پی آر ایل ملک میں کام کرنے والی پانچ ریفائنریوں میں سے ایک ہے — تصویر: شیل/فیس بک

پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) اور ایئر لنک کمیونیکیشن لمیٹڈ نے کہا ہے کہ وہ شیل پاکستان لمیٹڈ کی اکثریتی شیئر ہولڈنگ اور کنٹرول خریدنا چاہتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ مطابق شیل پاکستان لمیٹڈ جو کہ آئل مارکیٹنگ کی تیسری سب سے بڑی کمپنی ہے جس کا مجموعی فروخت میں حجم 8 فیصد ہے۔

یہ کمپنیاں ابتدائی طور پر 77.42 فیصد شیئر خریدنے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں جب کہ شیل پاکستان کے غیر ملکی اسپانسر نے یہ شیئرز اپنے عالمی پورٹ فولیو کو آسان بنانےکے منصوبے کے تحت جون میں فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ٹیک اوور کے لیے مروجہ ضوابط کے مطابق حصص فروخت کرنے کا دوسرا مرحلہ شیئر ہولڈنگ کے 50 فیصد حصے تک کے لیے ہوگا جو عوامی پیشکش پر مشتمل ہو گا، جو عوام، پبلک سیکٹر کمپنیوں، بینکوں اور میوچل فنڈز کے زیر کنٹرول ہیں۔

اسی طرح دونوں کمپنیاں کامیابی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اپنے موجودہ اسپانسر کے ساتھ حصص کی مساوی یا زیادہ قیمت پر اس کے 11.29 فیصد شیئر ہولڈنگ کے لیے عوامی پیشکش کو بڑھانے کی پابند ہوں گی۔

115.05 روپے کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق آئل مارکیٹنگ میں غیر ملکی اسپانسر کی پوری شیئر ہولڈنگ کی قیمت تقریباً 19 ارب روپے بنتی ہے۔

اس پیشکش کی منیجر نیکسٹ کیپیٹل کی جانب سے ریگولیٹری فائلنگ نے اس متعلقہ شیئر ہولڈنگ کا ذکر نہیں کیا جس کے حصول کے لیے دونوں کمپنیاں کوشاں ہیں۔

پی آر ایل ملک میں کام کرنے والی پانچ ریفائنریوں میں سے ایک ہے جبکہ ایئر لنک کمیونیکیشن اسمارٹ فونز کی عوامی طور پر درج شدہ ڈسٹری بیوٹر، مینوفیکچرر اور ریٹیلر کمپنی ہے۔

پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ (پی ایس او) جو ملک میں تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مجموعی شیئرز کے نصف کی مالک کمپنی ہے، وہ پی آر ایل میں بھی 63.5 شیئر ہولڈنگ رکھتی ہے۔

اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو آئل مارکیٹنگ کی سب سے بڑی کمپنی میں ملک کی تیسری بڑی کمپنی شامل ہو جائے گی جس سے آئل مارکیٹنگ کے کاروبار میں اس کا کردار مزید مستحکم ہوجائے گا۔

ایک تبصرہ نگار نے اس معاہدے کو ’نان اسٹارٹر‘ قرار دیا جب کہ مسابقتی کمیشن پاکستان مداخلت کر کے اس ٹرانزیکشن کو روک سکتا ہے۔

تاہم ڈان سے بات کرنے والے ایک اور تجزیہ کار نے نوٹ کیا کہ کسی بھی ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ایسی مزاحمت کی توقع نہیں ہے جب کہ یہ اقدام سرکار کی زیر ملکیت کمپنی پی ایس او نے شروع کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں