اراکین قومی اسمبلی کا وڈھ میں قبائلی جھڑپوں پر اظہارِ تشویش، تنازع کے حل کی کوششیں جاری

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2023
اراکین نے صورتحال قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: ٹوئٹر/قومی اسمبلی
اراکین نے صورتحال قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: ٹوئٹر/قومی اسمبلی

قانون سازوں نے قومی اسمبلی میں مسلسل دوسرے روز ضلع خضدار کے شہر وڈھ میں قبائلی جھگڑے کی وجہ سے بگڑتے ہوئے امن و امان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صورتحال قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے فوری مداخلت کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ وڈھ میں بدھ کے روز سے مسلح تصادم جاری ہے، جب بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) کے صدر سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل کے مسلح کارندوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوا، جس کے دوران فریقین نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔

قبائلی اور سرکاری حکام کی جانب سے جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک 7 افراد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں سے 3 جمعہ کو زخمی ہوئے۔

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور بی این پی-ایم کے رکن آغا حسن بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے اسمبلی اجلاس میں قانون سازوں کی توجہ وڈھ کی صورتحال کی جانب مبذول کرائی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوں نے ان کی پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا تھا۔

آغا حسن بلوچ نے کہا کہ ’صرف 10 سے 15 منٹ قبل اختر مینگل کی رہائش گاہ پر مارٹر گولے فائر کیے گئے ’، وزیر نے دعویٰ کیا کہ اطلاعات ہیں کہ اس کے نتیجے میں 3 سے 4 بچے زخمی ہوئے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے کہ شفیق مینگل نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاید ہم نے موجودہ حکومت کا اتحادی بن کر اور پی ڈی ایم کو ووٹ دے کر غلطی کردی، بلوچستان کے ساتھ جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، ہمیں جمہوری سیاست کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر نے حیرت کا اظہار کیا کہ حکام شفیق مینگل کے خلاف کارروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں جو مبینہ طور پر دہشت گردی اور فرقہ واریت کے واقعات میں ملوث ہے اور وہ پہلے ہی 600 کے قریب افراد کو قتل کرچکا ہے اور اس کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ (ہمیں) کیا پیغام پہنچایا جارہا ہے؟

بعد ازاں خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی اختر مینگل کے گھر پر ہونے والے ’مسلح حملے‘ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ ’انہیں (اختر مینگل) اپنی پسند کا سیاسی فیصلہ لینے پر مجبور نہ کریں‘۔

قبائلی افراد کے درمیان وڈھ میں ہونے والی جھڑپوں سے معمولات زندگی اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوگئی ہیں، مکین اپنے گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر گزشتہ 3 روز سے ٹریفک معطل ہے۔

جمعہ کے روز دونوں جماعتوں نے صبح 9 بجے کے قریب ایک دوسرے کے علاقوں میں فائرنگ شروع کر دی، اس دوران راکٹ اور مارٹر گولوں کا بھی استعمال کیا، جس سے وڈھ علاقے کے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔

ایک سینئر عہدیدار نے فون پر ڈان کو بتایا کہ ایک مارٹر گولہ مینگل کوٹ وڈھ قصبے پر گرا، جس سے 3 افراد زخمی ہوئے۔

ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ زخمیوں میں سے ایک مزدور کو شدید زخم آئے اور اسے علاج کے لیے کراچی لے جایا گیا۔

اسلم رئیسانی کی کوششیں

دوسری جانب نواب اسلم رئیسانی نے دونوں اطراف کے کئی عہدیداروں اور قبائلی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد جنگ بندی پر عارضی معاہدے کی اطلاع دی ہے۔

یہ معاہدہ ایک قبائلی جرگے کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے، جو کہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے رہنماؤں کی ایک روایتی مجلس ہے، تاکہ جاری تنازعات کے دیرپا حل کی نشاندہی کی جا سکے۔

ہفتہ کو ہونے والے امن مذاکرات کے دوسرے دور سے پہلے اسلم رئیسانی نے تصدیق کی کہ قبائلی عمائدین کا ایک گروپ جنگ بندی کی نگرانی کے لیے وڈھ میں رہے گا۔

انہوں نے قبائلی رسم و رواج کے مطابق تنازع کے پرامن حل کے حصول کے ہدف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہاں خونریزی کو روکنے کے لیے آئے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں