باجوڑ خودکش حملہ ’انٹیلی جنس کی ناکامی‘ قرار

اپ ڈیٹ 01 اگست 2023
خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان غلط فیصلوں اور معاشرے میں رائج غیر جمہوری ذہنیت کی وجہ سے دہشت گردی کی زد میں ہے—فوٹو:ڈان نیوز
خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان غلط فیصلوں اور معاشرے میں رائج غیر جمہوری ذہنیت کی وجہ سے دہشت گردی کی زد میں ہے—فوٹو:ڈان نیوز

اراکین قومی اسمبلی نے 2 روز قبل باجوڑ میں سیاسی اجتماع کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی دو درجن سے زائد انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ’مکمل ناکامی‘ اور حکومتوں کی ’غیر واضح افغان پالیسی‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے بم دھماکے میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، اس پر مختصر بحث کے بعد اراکین اسمبلی نے 7 قانون منظور کیے جن میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم سے متعلق متنازع بل بھی شامل تھا۔

دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر سوال اٹھانے کے علاوہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں اس طرح کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا جب کہ ملک انتخابی مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔

اراکین اسمبلی نے باجوڑ واقعہ کے تناظر میں خفیہ ایجنسیوں کے لیے مختص بھاری بجٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مقامی انتظامیہ کو اس طرح کے کسی حملے کے بارے میں کوئی وارننگ جاری نہیں کی گئی تھی۔

پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے کہا کہ اگر ہم پارلیمنٹ میں یہ نہیں کہہ سکتے تو ہم کہاں کہہ سکتے ہیں؟ باجوڑ واقعہ انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی تھا۔

خورشید شاہ نے بظاہر 1981 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد اس وقت کے آمر جنرل ضیا کی جانب سے متعارف کرائی گئی افغان جہاد پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود اس دلدل سے باہر نہیں نکل سکا جس میں اسے دھکیل دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ماضی کے غلط فیصلوں اور معاشرے میں رائج غیر جمہوری ذہنیت کی وجہ سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما اور وزیر مواصلات اسعد محمود نے باجوڑ واقعہ کو پاکستان، اس کی معیشت اور جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں نئی حکومت آئی لیکن پاکستان نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا، ہم نہیں جانتے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کے ساتھ کیا کرنا ہے جو ملک میں مداخلت کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ذمہ دار لوگوں نے انہیں بتایا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور ایک ماہ کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے شروع کر دیے اور پھر ہمیں مطلع کردیا گیا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما نے سوال اٹھایا کہ وہ کون ہیں جنہوں نے مذاکرات کیے، پھر یہ لوگ [ٹی ٹی پی سے وابستہ لوگ] واپس آگئے اور پھر انہوں نے اعلان کیا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما نے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دہشت گردی کس نے سکھائی جنہیں دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے ؟ انہیں کس نے سکھایا کہ خودکش جیکٹ کیسے بنتی ہے؟ انہیں بم بنانا کس نے سکھایا؟ مولانا اسعد محمود نے کہا کہ وہ جلد ہی صورتحال پر بحث کے لئے پی ڈی ایم کا اجلاس طلب کریں گے۔

جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ملک میں مبینہ طور پر 25 انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں لیکن انہوں نے حملے کے بارے میں کوئی پیشگی معلومات فراہم نہیں کیں، انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری جان و مال ، عزت اور آبرو کا تحفظ کرے۔

پی ٹی آئی کے منحرف رکن ریاض مزاری نے کہا کہ ملک میں بڑھتی دہشت گردی پر افغان جہاد اور اسلام کے نام پر ڈالر وصول کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جانی چاہیے اور ان کا احتساب کیا جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں