کم قیمت کے باوجود روسی تیل کی درآمد میں زرمبادلہ، ریفائنریز و بندرگاہوں کی محدود صلاحیت رکاوٹ

اپ ڈیٹ 01 اگست 2023
روس سے تیل کی پہلی کھیپ گزشتہ ماہ کراچی بندرگاہ پر پہنچی اور اس کی ادائیگی چینی یوآن میں کی گئی — تصویر: رائٹرز
روس سے تیل کی پہلی کھیپ گزشتہ ماہ کراچی بندرگاہ پر پہنچی اور اس کی ادائیگی چینی یوآن میں کی گئی — تصویر: رائٹرز

حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق روسی خام تیل کی پُرکشش قیمتوں کے باوجود غیرملکی کرنسی کی کمی، ریفائنریز اور بندرگاہوں کی محدود صلاحیت پاکستان کے لیے روسی خام تیل کو تیل کی کُل درآمدات کا دوتہائی حصہ بنانے کے ہدف کا حصول مشکل نظر آرہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق معاشی بدحالی کا شکار جنوبی ایشیائی ملک اب روس کا نیا صارف ہے، جسے وہ کم قیمتوں پر تیل فروخت کرتا ہے جس پر روس-یوکرین جنگ کے باعث یورپی ممالک میں پابندی عائد ہے، خام تیل کی پہلی کھیپ جون میں پہنچی جبکہ دوسری کے لیے مذاکرات ابھی جاری ہیں۔

پاکستان نے سال 2022 میں مجموعی طور پر روزانہ ایک لاکھ 54 ہزار بیرل خام تیل درآمد کیا تھا، پاکستان نے رواں سال یہ ہدف طے کیا تھا کہ وہ روزانہ ایک لاکھ بیرل روسی خام تیل درآمد کرے گا جس سے یہ امید ظاہر کی جارہی تھی کہ اس کے درآمدی بل میں کمی واقع ہوگی اور زرِمبادلہ کے بحران سے نمٹنے میں اسے مدد ملے گی اور ساتھ ہی یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

تاہم روسی تیل کے خراب معیار اور زیادہ درآمدی اخراجات کے باعث اس کے فوائد بھی پاکستان میں تیل کے اہم سپلائرز سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درآمد ہونے والے تیل کے برابر ہی ہیں۔

پاکستان میں قائم ایف آر آئی ایم وینچرز کے چیف سرمایہ کاری افسر شہباز اشرف کہتے ہیں کہ روسی تیل سے ایندھن کی مصنوعات کی کم پیداوار کے باعث پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا، اس کے لیے بیرونی ادائیگیوں کی مد میں ڈالرز کی طلب میں اضافہ ہوگا جس سے بحران کا شکار ہماری معیشت پر مزید دباؤ بڑھے گا۔

اگرچہ اسلام آباد اور ماسکو نے تیل کی قیمتوں اور ان میں کمی کے حوالے سے مکمل تفصیلات تو جاری نہیں کیں لیکن روسی تیل کی ادائیگی کے لیے چینی کرنسی یوآن کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے، چین جو روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، روس کو اس سے تجارت کے لیے یوآن کی ضرورت ہے۔

پاکستان نے روسی تیل کی پہلی کھیپ کی ادائیگی چینی کرنسی یوآن میں کی تھی، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے اسسٹنٹ پروفیسر عادل ناخودہ کہتے ہیں کہ روس کو یوآن میں ادائیگی کرنے کے بجائے پاکستان کے لیے بارٹر ڈیل کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر روسی خام تیل کی ادائیگی کے لیے یوآن کے کم ذخائر کا استعمال کرےگا تو وہ دیگر قرض دہندگان کو ادائیگی کیسے کرے گا اور چین سے تجارت کیسے کرے گا؟

بندرگاہوں اور ریفائنری کی محدود صلاحیت

یہ حقیقت ہے کہ روسی تیل کی ترسیل کی لاگت مشرقِ وسطیٰ سے درآمد شدہ تیل سے کئی گنا زیادہ ہے، ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے بلکہ اس کے پیچھے یہ حقیقت بھی ہے کہ پاکستان کی بندرگاہوں پر روس سے آنے والے بڑے جہاز لنگر انداز نہیں ہوسکتے۔

پاکستانی حکام بتاتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ سے براہِ راست تیل کی ترسیل کرنے کے بجائے یورال خام تیل کو پاکستان بھیجنے سے پہلے اومان میں لائٹرنگ آپریشن کے ذریعے سپرٹینکر سے چھوٹے جہازوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

کپلر میں خام تیل کے تجزیہ کار وکٹر کاٹونا کہتے ہیں کہ ترسیل کی زیادہ لاگت کے باوجود روسی تیل درآمد کرنا فائدہ مند ہے، سعودی عرب کے لائٹ خام تیل پاکستانی ریفائنرز کے لیے یورال کے مقابلے میں 10 سے 11 ڈالر فی بیرل زیادہ مہنگا پڑتے ہیں جبکہ لائٹرنگ آپریشنز سے تقریباً 2 سے 3 ڈالرز فی بیرل کا اضافہ بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سے پاکستانی خریداروں کو فائدہ ہی پہنچے گا‘۔

تاہم یورال تیل کا استعمال ایک رکاوٹ ہے کیونکہ پاکستانی ریفائنریز روسی خام تیل سے اتنا پیٹرول اور ڈیزل پیدا نہیں کرسکتیں جو وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل ہونے والے تیل سے پیدا کرتی ہیں۔

رائٹرز سے بات کرتے ہوئے سرکاری ریفائنری کے چیف ایگزیکٹو زاہد میر کہتے ہیں کہ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) کو ایک لاکھ میٹرک ٹن (7 لاکھ 30 ہزار بیرلز) درآمد شدہ روسی خام تیل ریفائن کرنے میں کم از کم 2 ماہ کا وقت لگے گا کیونکہ اسے مشرقِ وسطیٰ سے درآمد شدہ تیل میں ملانے کی ضرورت ہوگی تاکہ ایندھن کی اعلیٰ طلب کو پورا کیا جاسکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے بہترین پروسیسنگ حل یہی ہے کہ روسی تیل میں مشرقِ وسطیٰ سے درآمد شدہ خام تیل کو ملایا جائے جبکہ اس مرکب میں 50 فیصد سے زائد یورال کو شامل نہیں کرنا چاہیے‘۔

زاہد میر مزید کہتے ہیں کہ پی آر ایل کا خام تیل کو اعلیٰ معیاری ایندھن میں پروسیس کرنے کے حوالے سے ریفائنریز کو اپ گریڈ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں