آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل کو سینیٹ میں شدید مخالفت کا سامنا، قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا

اپ ڈیٹ 02 اگست 2023
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل پیش کیا جس کی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اراکین نے بھی شدید مخالفت کی — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل پیش کیا جس کی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اراکین نے بھی شدید مخالفت کی — فوٹو: ڈان نیوز

ایک صدی پرانے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کے بل پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں شدید مخالفت کے بعد سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔

جلد ہی اپنی مدت مکمل کرنے والی حکومت نے گزشتہ روز خاموشی سے آفیشل سیکریٹ (ترمیمی) بل 2023 قومی اسمبلی سے منظور کرا لیا تھا، جس کے تحت خفیہ ایجنسیوں کو مکمل اختیارات دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ کسی بھی شہری کو قانون کی خلاف ورزی کے شبہے میں چھاپہ مار کر حراست میں لے سکیں گی۔

سینیٹ کے آج کے ایجنڈے کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے بل کو منظوری کے لیے پیش کرنا تھا۔

تاہم ان کی غیر موجودگی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا جس کی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اراکین نے بھی شدید مخالفت کی۔

ایوان میں بل کی شدید مخالفت کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے۔

بل کی تفصیلات

سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم نے فوجی تنصیبات کی تعریف کو وسیع کر دیا ہے اور اس میں مواصلات کے ڈیجیٹل اور جدید ذرائع کو قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے جس کے بعد ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سے وی لاگرز اور بلاگرز بھی قانون کے دائرے میں آسکتے ہیں۔

’دستاویز‘ کی تعریف کو وسیع کر دیا گیا ہے کیونکہ اب اس میں فوج کی خریداریوں اور صلاحیتوں سے متعلق کوئی تحریری، غیر تحریری، الیکٹرانک، ڈیجیٹل، یا کوئی دوسرا ٹھوس یا غیر ٹھوس آلہ بھی شامل ہے۔

اسی طرح مجوزہ قانون میں ’دشمن‘ کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو براہ راست یا بالواسطہ، جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کسی غیر ملکی طاقت، غیر ملکی ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر، تنظیم، ادارے، انجمن کے ساتھ کام کر رہا ہو وہ پاکستان کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانے کے جرم میں مجرم تصور کیا جائے گا۔

ماہرین اس سیکشن کو انصاف کے اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ قانون کسی بھی قسم کے غیر ارادی رابطے کو منصوبہ بندی کے تحت کی گئی جاسوسی کے برابر سمجھتا ہے۔

مجوزہ قانون انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو بااختیار بنائے گا کہ وہ سرکاری رازوں کی خلاف ورزی کے شبے میں کسی بھی شہری کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر سکیں گے جبکہ محض خفیہ ایجنٹ کا نام ظاہر کرنا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔

سیکشن 11 میں ترمیم کے ذریعے ایوان زیریں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو وسیع اختیارات دیے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی وقت، کسی بھی شخص یا جگہ پر بغیر وارنٹ داخل ہونے اور تلاشی لینے کی اجازت ہوگی اور اگر ضرورت ہو تو طاقت کا استعمال بھی کر سکیں گے اور اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی دستاویز، خاکہ یا ایسی کوئی بھی چیز ضبط کر سکیں گے جس کے ذریعے کسی جرم کا ارتکاب کرنے یا کیے جانے کا شبہ ہو یا پھر اگر وہ اس جرم کا ثبوت ہو۔

سیکشن 6 میں ترمیم کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان یا مخبروں یا ذرائع کی شناخت کو ظاہر کرنے پر تین سال قید کی سزا کے ساتھ شہری پر جرمانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت مسلح افواج کی تنصیبات، مشقوں کی جگہ، تحقیقی مراکز پر حملہ بھی قابل تعزیر جرم تصور ہوگا اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں کی خلاف ورزی پر سزائیں اور جرمانے بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔

فی الحال یہ جرم صرف جنگ کے دوران اس طرح کی نقل و حرکت تک محدود ہے، تاہم مجوزہ بل میں امن کے دنوں میں بھی یہ لاگو ہو سکے گا۔

سیکشن 3 کا نام ’جاسوسی کی سزا‘ سے بدل کر ’جرائم‘ رکھا جا رہا ہے۔

موجودہ جرائم میں معمولی ترامیم کے ساتھ اس نے ممنوعہ علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعے تصویر کشی کو بھی جرم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

سیکشن 4 میں ترامیم پاکستان کے اندر یا باہر کسی غیر ملکی ایجنٹ کے پتے پر جانے کو بھی جرم قرار دیتی ہیں۔

مجوزہ قانون وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر مشتبہ افراد سے تفتیش کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت ایک تفتیشی افسر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کا افسر ہوگا جو گریڈ 17 یا اس کے مساوی درجے سے نیچے نہ ہو، مذکورہ افسر کو تحقیقات کے مقصد کے تحت ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔

اگر ایف آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل ضروری سمجھے تو وہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے سکتا ہے جس کی سربراہی ایک افسر کرے گا اور جو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ایسے دیگر افسران پر مشتمل ہو گی جنہیں وہ مقرر کرے گا۔

جے آئی ٹی کو 30 کام کے دنوں میں تفتیش مکمل کرنی ہوگی اور چالان سرکاری وکیل کے ذریعے خصوصی عدالت میں جمع کرایا جائے گا۔

قانون شواہد کے قابل قبول ہونے سے متعلق بھی ہے اور یہ کہتا ہے الیکٹرانک آلات، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات، یا اس طرح کے دیگر متعلقہ مواد سمیت انکوائری یا تفتیش کے دوران جمع کیا گیا تمام مواد، جو کسی بھی جرم کے ارتکاب میں سہولت فراہم کرتا ہو، وہ بطور ثبوت قابل قبول ہوگا۔

مجوزہ قانون کا ایک طائرانہ جائزے سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ 9 مئی کے تشدد کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا جب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے برپا ہو گئے تھے۔

تاہم قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف اس کا استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس قانون کے عمل میں آنے کے بعد اس کا سابقہ دور پر اطلاق نہیں کیا جا سکے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں