’مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کوئی بنیاد نہیں تھی‘

03 اگست 2023
بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندراچد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی— فائل فوٹو: رائٹرز
بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندراچد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی— فائل فوٹو: رائٹرز

بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندراچد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’بھارتی پارلیمنٹ خود کو آئین ساز اسمبلی قرار نہیں دے سکتی‘۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق کپل سبل نے درخواست گزار، محمد اکبر لون کی جانب سے اپنی گزارشات پیش کیں، کہ کس طرح مودی حکومت نے 5 سال قبل مناسب طریقہ کار اور قانون کی حکمرانی کے اہم عناصر کو نقصان پہنچا کر یکطرفہ طور پر بھارت کی منفرد وفاقی اسکیم سے پردہ اٹھایا۔

ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ ’الحاق‘ کی تاریخ بتاتے ہوئے وکیل کپل سبل نے آرٹیکل 370 کی شق 3 پر روشنی ڈالی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر اور بھارتی یونین کے درمیان تعلقات میں کسی قسم کی تبدیلی ریاست کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر ہی کی جا سکتی ہے۔

2019 میں خاتمے سے قبل بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 (3) میں کہا گیا تھا کہ ’اس آرٹیکل کی مذکورہ بالا دفعات میں کسی بھی چیز کے باوجود صدر درکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اعلان کر سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل فعال نہیں رہے گا بشرط یہ کہ صدر کی جانب سے ایسا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل شق (2) میں ذکر کردہ ریاست کی دستور ساز اسمبلی کی سفارش ضروری ہو گی۔

تاہم 5 اگست 2019 کو نئے داخل کردہ آرٹیکل 367(4)(د) نے آرٹیکل 370(3) میں ترمیم کر کے ’ریاست کی دستور ساز اسمبلی‘ کو ’ریاست کی قانون ساز اسمبلی‘ سے بدل دیا تھا۔

عوام کی مرضی کا اظہار

سماعت کے دوران وکیل کپل سبل نے استدلال کیا کہ گورنر کے ذریعے فراہم کردہ ریاستی حکومت کی رضامندی لوگوں کی مرضی ظاہر نہیں کرتی۔

انہوں نے دلیل دی کہ مقبوضہ کشمیر کا آئین علیحدہ ہے اور اس لیے پارلیمنٹ کے پاس ریاست کے لیے قانون سازی کرنے کی گنجائش محدود ہے۔

تاہم آئینی بینچ نے انہیں یہ سوال کرنے سے روک دیا کہ کیا کوئی شق، جس کا ارادہ 1950 میں عارضی ہونا تھا، 1957 میں مستقل ہو سکتی ہے، صرف اس لیے کہ ریاست کی آئین ساز اسمبلی نے ریاست کے لیے آئین بنانے کا اپنا کام مکمل کر کے خود کو تحلیل کر لیا تھا۔

وکیل نے وضاحت کی کہ آرٹیکل 370(3) میں اس شرط کو شامل کیا گیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے وجود کے دوران آرٹیکل کو تبدیل کیا جا سکے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ آرٹیکل 370 کے نوٹ میں لفظ ’عارضی‘ کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرنے کا مقصد پورا کرتا تھا کہ جب آرٹیکل 370 متعارف کرایا گیا تھا تو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش کے ساتھ اس میں ترمیم یا اسے منسوخ کیا جا سکتا تھا۔

کپل سبل نے مشورہ دیا کہ 1950 میں آئین بنانے والے اگر یہ سمجھتے کہ ریاستی مقننہ کو ایسی سفارش کرنے کے قابل ہونا چاہیے تو وہ اس کا حوالہ شامل کرتے۔

وکیل کے مطابق آئین بنانے والوں کے خیال میں ریاست کی آئین ساز اسمبلی کو خصوصی اختیار حاصل تھا کہ وہ ریاست کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا تعین کرے اور آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کی سفارش کرے۔

دلائل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین بذات خود ایک سیاسی دستاویز ہے، ایک بار جب آئین نافذ ہو جاتا ہے تو تمام ادارے آئین کے تحت چلتے ہیں اور وہ ادارے آئین کی دفعات کے مطابق اپنے اختیارات کے استعمال میں محدود ہوتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ خود کو آئین ساز اسمبلی کے طور پر تبدیل نہیں کر سکتی، یہ ہو چکا ہے، پارلیمنٹ کو ریاست کی مقننہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کہاں سے ملتا ہے؟.

وکیل کا کہنا تھا کہ اس وقت 562 شاہی ریاستیں تھیں جنہیں ضم کرنا تھا، ان میں سے ہر ایک کی کچھ شرائط تھیں لیکن جموں و کشمیر ایک مستثنیٰ تھا اور اس لیے اسے آئینی طور پر آرٹیکل 370 سے پیوست کیا گیا تھا، آپ جموں و کشمیر کے لوگوں کو تنگ نہیں کر سکتے’۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ دوسری ریاستوں کے برعکس یہاں بقایا طاقت ریاستی مقننہ/ریاستی حکومت کے پاس ہے۔

مسٹر سبل نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ جمہوریت سے دور کیا گیا اقدام ہے، ملک کی تاریخ میں کبھی بھی کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

مذکورہ درخواستوں پر سماعت آج بھی جاری رہے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں