نئی مردم شماری کے نتائج کی متفقہ منظوری، انتخابات آئندہ برس مارچ-اپریل تک ملتوی ہونے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 06 اگست 2023
عام انتخابات 2023 سے آگے بڑھ کر ممکنہ طور پر 2024 کے موسم بہار تک ملتوی ہونے کا امکان پیدا ہوگیا — فائل فوٹو: رائٹرز
عام انتخابات 2023 سے آگے بڑھ کر ممکنہ طور پر 2024 کے موسم بہار تک ملتوی ہونے کا امکان پیدا ہوگیا — فائل فوٹو: رائٹرز

قومی اسمبلی 9 اگست کو تحلیل ہونے کی صورت میں عام انتخابات 8 نومبر تک متوقع تھے تاہم اب مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے فیصلے کے نتیجے میں انتخابات کا انعقاد کئی ماہ کے لیے تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان دونوں نے نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں اپنے اعلان کردہ مؤقف کو تبدیل کر دیا ہے، جس کے سبب اگلے عام انتخابات 2023 سے آگے بڑھ کر ممکنہ طور پر 2024 کے موسم بہار تک ملتوی ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے مردم شماری کے حتمی نتائج کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کے مؤقف کے بارے میں سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اب قانونی طور پر نئی حلقہ بندی کرنے کا پابند ہے، جس میں کم از کم 4 ماہ لگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آئینی تقاضا ہے اور ہمیں یہ کرنا ہوگا، اس حوالے سے تفصیلی امور الیکشن کمیشن کی جانب سےسرانجام دیے جائیں گے جو کہ انہیں سرکاری نوٹی فکیشن موصول ہونے کے بعد عمل میں لائے جائیں گے۔

الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 17 (1) کے تحت الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی، ہر صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے علاقائی حلقوں کی حلقہ بندی کرنی ہے اور ہر مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے بعد نئے سرے سے حلقوں کی حلقہ بندی کرنی ہوتی ہے۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور دیگر متعلقہ اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری مشق آئندہ برس مارچ یا اپریل تک ملتوی ہوسکتی ہے۔

اس کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرح وفاق، سندھ اور بلوچستان میں بھی ایک توسیعی مدت کے لیے نگران سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کم از کم 2 وفاقی وزرا نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے سرکاری نتائج کو نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور انتخابات وقت پر ہوں گے۔

26 جولائی کو جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نگران حکومت کو زیادہ اختیارات دینے کا بل منظور کیا گیا تو وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق (جو انتخابی اصلاحات کے پینل کے سربراہ بھی ہیں) نے اس تاثر کو یکسر مسترد کر دیا کہ یہ اقدام ایک طویل وقت کے لیے نگران حکومت قائم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

20 جولائی کو الیکشن کمیشن کے اہم عہدیداروں نے بھی عام انتخابات میں کسی تاخیر کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر 12 اگست کو مدت ختم ہونے سے پہلے قومی اور 2 صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کی گئیں تو انتخابات 11 اکتوبر سے پہلے کرائے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن کے سیکریٹری عمر حامد خان اور اسپیشل سیکریٹری ظفر اقبال حسین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن 60 روز یا 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

انہوں نے انتخابی مشق سے قبل حلقوں کی نئی حلقہ بندی کے امکان کو بھی مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ انتخابات پچھلی مردم شماری اور حلقہ بندی کے تحت کرائے جائیں گے۔

عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے تیار کردہ ایکشن پلان کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 2023 کے عام انتخابات، انتخابات کمیشن کی جانب سے گزشتہ سال 5 اگست کو شائع کردہ حلقہ بندیوں کے مطابق کرائے جانے تھے، تاہم اب مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کے حتمی نتائج کی منظوری کے بعد یہ تمام منظرنامہ بدل گیا ہے۔

قانونی پیچیدگیاں

آئین کے آرٹیکل 51 (3) کے تحت باضابطہ طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ہر صوبے اور وفاق کو اس کی آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں نشستیں مختص کی جاتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مقننہ کی ساخت میں کسی تبدیلی (جو کہ نئی حلقہ بندی کے بعد ضروری بن سکتی ہے) کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، جو کہ اسمبلی کی غیر موجودگی میں ممکن نہیں ہوگی۔

آئین کے آرٹیکل 51 (5) میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے، وفاق اور دارالحکومت کے لیے آبادی کی بنیاد پر سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق مختص کی جائیں گی۔

حتیٰ کہ اگر موجودہ اسمبلی کا سیشن جاری بھی ہے تو بھی اس کی موجودہ طاقت آئین میں ترمیم منظور کرنے کے لیے ناکافی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی ایوان میں موجود نہیں ہیں، اس کا مطلب ہے کہ 342 کے ایوان میں آئینی ترمیم منظور کرنے کے لیے کم از کم 228 ارکان کی منظوری ضروری ہے، موجودہ اسمبلی میں اراکین کی تعداد اس سے واضح طور پر کم ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں