توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے 3 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔

لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے خبرایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کو وفاقی دارالحکومت منتقل کیا جا رہا ہے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ سنایا اور انہیں 3 سال قید کی سزا سنا دی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔


اہم پیش رفت:

  • اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو قصوروار قرار دیا
  • چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے فیصلے کو ’انصاف کا قتل‘ قرار دیا
  • چیئرمین پی ٹی آئی کا کارکنوں پر پرامن احتجاج پر زور
  • سابق وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت 5 سال کے لیے نااہل ہوئے
  • عمران خان کو لاہور سے اسلام آباد منتقل کیا گیا

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے مختصر فیصلے میں کہا کہ ’عدالت مطمئن ہے کہ درخواست گزار (الیکشن کمیشن) نے مؤثر اور مصدقہ ثبوت پیش کیے اور ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوگیا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف اور 2018-2019 اور 2019-2020 کے دوران استعمال میں لا کر بنائے گئے اثاثوں کی جھوٹی ڈیکلریشن کے ذریعے کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا‘۔

جج نے کہا کہ عمران خان نے اثاثہ جات اور اخراجات کے حوالے سے فارم بی میں ’غلط ڈیکلریشن‘ فراہم کیا جو 2020-2021 میں الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’وہ قومی خزانے سے حاصل کردہ منافع بخش چیزوں کو ارادتاً چھپاتے ہوئے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب قرار پائے گئے ہیں، انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے دھوکا دہی کی کیونکہ وہ بعد میں غلط ثابت ہوگئیں‘۔

مزید کہا گیا کہ ’ان کی بددیانتی بغیر کسی شک و شبہے کے ثابت ہوچکی ہے‘۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست بھی مسترد کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید کی سزا سنا دی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔

توشہ خانہ کارروائی کیس کی سماعت 3 مرتبہ وقفے کے بعد شروع ہوئی، عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں، ملزم کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں، ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں۔

جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم آج عدالت میں پیش نہیں ہیں، فیصلے کی کاپی آئی جی اسلام آباد کو عمل درآمد کے لیے بھجوائی جائے۔

گرفتاری کے وارنٹ میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو عمران خان کو گرفتار کرکے سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی بھیجنے کا اختیار دیا گیا ہے جہاں وہ سزا پر عمل کریں گے۔

سیشن عدالت کے فیصلے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت خود بخود 5 سال کے لیے کوئی بھی سرکاری عہدہ رکھنے کے لیے نااہل ہوگئے ہیں۔

قانون کے مطابق ہر وہ شخص جو اخلاقی جرم میں سزا یافتہ ہو، قید کی سزا جو دو سال سے کم نہ ہو تو وہ منتخب ہونے یا انتخاب کے لیے اور رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے نااہل ہوجائے گا۔

تاہم ان کے پاس اپیل کا حق موجود ہے۔

کیس کی سماعت

قبل ازیں آج صبح ساڑھے 8 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکلا امجد پرویز اور سعد حسن عدالت میں پیش ہوئے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا۔

سماعت کے آغاز سے قبل پولیس کی بھاری نفری احاطہ عدالت کے باہر تعینات تھی اور صرف وکلا کو کمرہ عدالت کے اندر جانے کی اجازت تھی، تاہم سماعت کے دوران عمران خان یا ان کے وکیل عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر جج نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ کیا کچھ کہیں گے؟ کوئی شعر و شاعری ہی سنا دیں، امجد پرویز نے جواب میں شعر کہا ’وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا، اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا‘۔

بعدازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو ساڑھے 10 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔

بعد ازاں کیس کی سماعت جب دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر گوہر کے معاون وکیل خالد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نیب کورٹ میں مصروف ہیں، خواجہ حارث بس آ ہی رہے ہیں۔

جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیس بتائیں، کس کیس میں خواجہ حارث مصروف ہیں؟ خالد چوہدری نے جواب دیا کہ احتساب عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہے۔

جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ ان کی وہاں کیا مصروفیات ہیں، کیا وہ ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دے رہے ہیں؟ خالد چوہدری نے جواب دیا کہ خواجہ حارث دلائل نہیں دے رہے، وہاں موجود ہیں، جیسے ہی وہاں سے فارغ ہوں گے، یہاں پیش ہو جائیں گے۔

جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ اگر خواجہ حارث پیش نہیں ہوتے تو کیا صورت حال ہوگی؟ گزشتہ روز کے آرڈر میں پیشی کی واضح ہدایات تھیں، ایسی صورتحال میں تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں، عدالت کیس کی سماعت 12 بجے تک ملتوی کرتی ہے، خواجہ حارث 12 بجے ہیش ہوں ورنہ فیصلہ محفوظ کرلیا جائے گا۔

تیسرے وقفےکے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے، جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کوئی پیش ہوا یا نہیں؟

عدالت نے کہا کہ چوتھی سماعت میں بھی خواجہ حارث عدالت پیش نہیں ہوئے، میں فیصلہ محفوظ کرتا ہوں، ساڑھے 12 بجے سناؤں گا۔

بعدازاں سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث عدالت پہنچ گئے۔

جج ہمایوں دلاور نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست مسترد کردی۔

انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں، ملزم کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں، ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں۔

جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174(کرپشن کے اقدامات کا جرم) کے تحت 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم آج عدالت میں پیش نہیں ہوئے ہیں، فیصلے کی کاپی آئی جی اسلام آباد کو عمل درآمد کے لیے بھجوائی جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر عمران خان نے ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا نہ کیا تو انہیں مزید 6 ماہ قید ہوگی۔

عمران خان کو ماضی برعکس، جب زمان پارک لاہور میں ان کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی، آج بغیر کسی مزاحمت کےگرفتار کرلیا گیا، پی ٹی آئی نے بھی ٹوئٹ میں اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ پارٹی نے گرفتاری کی کوئی مزاحمت نہیں کی۔

پی ٹی آئی نے بیان میں کہا کہ ’فیصلہ عدالت کے اندر بھی کسی کو نہیں ملا تھا لیکن لاہور پولیس پہلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کو اغوا کرنے کے لیے موجود تھی اور انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کیس کے شروع سے لے کر ٹرائل تک اور ٹرائل سے اغوا تک کا ہر عمل غیرقانونی ہے، اس مضحکہ خیز ٹرائل اور اغوا کے لیے ہر غیرقانی حربہ آزمایا گیا‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے۔

عدالت نے عمران خان کی توشہ خانہ فوجداری کیس ہمایوں دلاور کی عدالت سے منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ان کی گزشتہ گرفتاری کے تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ہوئی ہے، اس سے قبل انہیں 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے ایک روز بعد بڑے پیمانے پر جلاؤ گھیراؤ ہوا تھا اور اہم فوجی تنصیبات بھی حملوں کی زد میں آگئی تھیں اور اس کے نتیجے میں ان کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئی تھیں۔

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی کو اگلے روز ہی رہا کردیا گیا تھا لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں اور اہم رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں اور سابق وزرا نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی اور پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور چند رہنماؤں نے سیاست سے دست برداری کا بھی اعلان کیا۔

پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے چند رہنماؤں نے پارٹی کے سابق سیکریٹری جہانگیر خان ترین کی سربراہی میں استحکام پاکستان پارٹی بنائی اور خیبرپختونخوا میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کارکنوں کو پرامن احتجاج کی ہدایت

چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری سے قبل ٹوئٹر پر جاری کیے گئے اپنے وڈیو بیان میں کہا کہ ’جب تک یہ پیغام آپ تک پہنچے گا، مجھے یہ گرفتار چکے ہوں گے اور میں جیل میں ہوں گا، میری آپ سے ایک ہی درخواست ہے، آپ گھروں میں چپ کرکے نہیں بیٹھنا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں یہ جدوجہد اپنے لیے نہیں کر رہا ہوں، اپنی قوم اور قوم کے بچوں کے مستقبل کے لیے کر رہا ہوں، اگر آپ اپنے حقوق کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو آپ غلاموں کی زندگی گزاریں گے اور غلاموں کی کوئی زندگی نہیں ہوتی‘۔

کارکنوں کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ’یہ جنگ انصاف، آپ کے حقوق اور آپ کی آزادی کی ہے اور کبھی بھی کوئی آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا، زنجیریں گرتی نہیں بلکہ توڑنا پڑتی ہیں‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’پرامن احتجاج کرتے رہنا ہے جب تک آپ کو آپ کا حق نہیں ملتا، سب سے بڑا بنیادی حق ووٹ کے ذریعے اپنی حکومت منتخب کرنا ہے اور نہ کوئی قبضہ گروپ اس ملک پر قبضہ کرکے بیٹھ جائے، جو آج قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے‘۔

پی ٹی آئی کا ملک بھر میں احتجاج کا اعلان

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ مستقبل کے لائحہ عمل اور سابق وزیراعظم کی رہائی کے لیے قانونی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ جماعت نے ملک بھر میں قانون اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے پرامن احتجاج کا فیصلہ کیا ہے اور سپریم کورٹ سے بھی اپیل کی کہ نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی جائے۔

سپریم کورٹ میں اس سے قبل توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کے خلاف درخواست دی تھی۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ چیئرمین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے انتظامی اور سیاسی اقدامات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے اور پوری قوم نے سیشن عدالت کا فیصلہ مسترد کردیا ہے۔

ٹی وی فوٹیجز میں دکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان بشمول وکلا سابق وزیراعظم کی گرفتاری پر زمان پارک کے باہر احتجاج کر رہے ہیں، اس کے علاوہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں بھی مظاہرین پارٹی پرچم لیے باہر نکل آئے۔

آج انصاف کا قتل ہوا ہے، وکیل عمران خان

فیصلے سنائے جانے کے بعد عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’انصاف کا قتل‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں بہت مایوس اور افسردہ ہوں، آج انصاف کا قتل ہوا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا، ہمیں سوال جواب کرنے، دفاع میں کچھ کہنے یا اپنے دلائل دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی، میں نے اس طرح کی ناانصافی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل

عمران خان کے خلاف فیصلے اور گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی اسد عمر نے کہا کہ آج کا فیصلہ قانون کے بنیادی اصول پر ہی پورا نہیں اترتا کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، اعلیٰ عدالت میں یہ فیصلہ کھڑا نہیں ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاست دانوں کے بارے میں معنی خیز فیصلے عوام کے دلوں میں ہوتے ہیں، عدالتوں میں نہیں۔

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ایک متعصب جج کا متعصب فیصلہ جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ عجلت میں سنایا گیا جس میں کسی قانونی طریقہ کار کو نہیں اپنایا گیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ 22 اپریل کے بعد اس ملک میں آئین کا سنگین مذاق اور قانون وانصاف کی دھجیاں اڑائی جاری ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف اور پاکستانی عوام اس تعصبانہ فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، اس کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے اور حق وسچ کی فتح تک جہدوجہد جاری رکھیں گے۔

سابق پارلیمانی سیکرٹری قانون اور پی ٹی آئی کی سابق رہنما بیرسٹر ملیکہ بخاری نے کہا کہ مریم نواز کی لیول پلیئنگ فیلڈ ترازو کے پلڑے برابر کرنے کے احکامات پر آج انصاف کا قتل ہوگیا۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں