نواب شاہ ٹرین حادثے کی وجہ ’ٹوٹا ہوا ٹریک، فش پلیٹس کی غیرموجودگی‘ قرار

تحقیقاتی ٹیم نے ٹرین کے پٹری سے اترنے کی ایک اور وجہ ٹرین کے انجن کے پھسلنے کو بھی قرار دیا — فوٹو: اے ایف پی
تحقیقاتی ٹیم نے ٹرین کے پٹری سے اترنے کی ایک اور وجہ ٹرین کے انجن کے پھسلنے کو بھی قرار دیا — فوٹو: اے ایف پی

نواب شاہ کے قریب ٹرین حادثے کی محکمانہ تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ہزارہ ایکسپریس کے پٹری سے اترنے کی وجہ خراب ٹریک اور غیر موجود فش پلیٹس تھیں جس کے نتیجے میں لگ بھگ 30 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کی 6 رکنی انکوائری ٹیم کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام پہلوؤں سے جانچ پڑتال کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ حادثہ حال ہی میں ریل ٹریک ٹوٹنے اور فش پلیٹس غائب ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔

تحقیقاتی ٹیم نے ٹرین کے پٹری سے اترنے کی ایک اور وجہ ٹرین کے انجن کے پھسلنے کو بھی قرار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرین کا انجن سینئر حکام کی جانب سے بغیر جانچ روانہ کر دیا گیا تھا، مزید یہ کہ جائے حادثہ سے آگے لوہے کے فش پلیٹس اور لکڑی کے ٹرمینل جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے پائے گئے، لہٰذا اس حادثے کی ذمہ داری انجینئرنگ برانچ اور مکینیکل برانچ پر عائد ہوتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تخریب کاری کے خدشے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پٹری سے اترنے والی بوگیاں 750 فٹ کے فاصلے تک گھسیٹتی چلی گئیں، تاہم ٹیم میں شامل 2 ارکان نے رپورٹ میں اپنا اختلافی نوٹ درج کیا۔

ٹیم میں شامل ایک رکن نے کہا کہ وہ اس رپورٹ سے متفق نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجہ یہ تھی کہ ٹریک کو آپس میں جوڑنے والے 2 فش پلیٹس غائب تھیں اور گیج پھیلنے کی وجہ سے انجن پٹری سے اتر گیا تھا، نتیجتاً وہیل ڈسک کے باہر کھرچنےکے نشانات بھی نظر آئے، اس کے علاوہ ٹریک، فش پلیٹس اور بولٹ پر حرارت کے نشانات نہیں دیکھے گئے۔

رپورٹ سے اختلاف کرنے والے دوسرے ٹیم رکن کے مطابق پٹری سے اترنے کی اصل وجہ انجن کا ایکسل جام ہونا تھا جس کے نتیجے میں زوردار جھٹکے لگے اور فش پلیٹس پر نشانات رہ گئے، مسلسل جام ہونے سے اس میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں گمشدہ فش پلیٹس کے بولٹ ٹوٹ گئے۔

مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے پاکستان ریلوےکے ایک عہدیدار نے کہا کہ یہ ایک بہت ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ہے، حتمی رپورٹ کی تیاری میں کچھ وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تفصیلی تحقیقات جاری ہیں، فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلوے (گریڈ 22 کا افسر) اس سانحے کی وجہ جاننے کے لیے جائے حادثہ پر موجود ہیں۔

’کسی عہدیدار کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی گئی‘

فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلوے (ایف جی آئی آر) علی محمد آفریدی کی سربراہی میں انکوائری ٹیم نے گزشتہ روز جائے حادثہ کا دورہ کیا، یہ ٹریک پاکستان ریلوےکی مین لائن کا حصہ ہے جسے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت اپ گریڈ کیا جانا ہے۔

سکھر میں پاکستان ریلوے کے ڈویژنل کمرشل افسر محسن سیال نے کہا کہ ابھی تک کسی عہدیدار کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔

سوشل میڈیا پر مختلف لوگوں کی جانب سے پٹری کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کی کچھ تصاویر شیئر کی جا رہی تھیں، جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تباہ شدہ پٹریوں کی وجہ سے یہ المناک حادثہ پیش آیا۔

پاکستان ریلوے کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ تصویر حادثے کے بعد کی لگتی ہے، اگر یہ حادثے سے پہلے ٹوٹا ہوتا تو یقیناً بوگیوں سے پہلے انجن پٹری سے اتر جاتا، دوسرا یہ کہ پورے سسٹم میں لکڑی ریل کا حصہ ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ حادثے کی وجوہات پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔

ٹرینوں کا شیڈول تاحال متاثر

اگرچہ پاکستان ریلوے نے گزشتہ روز صبح 4 بجے تک ایک ٹریک کو بحال کرلیا تھا لیکن ٹرینوں کی آمدورفت کا سلسلہ تاحال بری طرح متاثر ہے۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ فی الوقت یہ صورتحال ہے کہ اگر 2 اپ کنٹری ٹرینوں کو ٹریک سے گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو ایک ڈاؤن کنٹری ٹرین کو آگے بڑھنے کا اشارہ دیا جاتا ہے۔

کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنوں پر روکا جا رہا ہے، ٹرینوں کو سنگل ٹریک سے گزرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔

ایک اور عہدیدار کے مطابق سرہاڑی کے قریب ریلوے ٹریک گزشتہ سال شدید بارشوں اور ملحقہ علاقوں سے بارش کا پانی ٹریک کے قریب چھوڑے جانے کے سبب زیر آب رہا لیکن یہ ٹریک متاثر نہیں ہوا تھا اور گزشتہ برس ستمبر میں سفر کے لیے بحال کردیا گیا تھا۔

پیپلز میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال نواب شاہ کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ریاض عمرانی کے مطابق 27 لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں جبکہ 3 لاشوں کو سرد خانے میں رکھا گیا ہے، 21 زخمی افراد گزشتہ روز دوپہر تک زیر علاج تھے۔

’بروقت اقدامات کے بجائے حادثہ ہونے کا انتظار‘

اگر 2 برس پرانی ایک سرکاری رپورٹ پر غور کیا جائے تو اتوار (6 اگست) کو پیش آنے والا یہ مہلک حادثہ غیر متوقع دکھائی نہیں دیتا۔

2021 میں اعلیٰ افسران کو بھیجے گئے خط میں سابق ڈی ایس سکھر ریلوے میاں طارق لطیف نے کہا تھا کہ سکھر ڈویژن میں پٹریوں کی حالت انتہائی خستہ ہے، تمام پٹریوں کے جوڑ جگہ جگہ سے ڈھیلے اور کمزور ہیں، بڑے بڑے خلا موجود ہیں، فش پلیٹس اور جوائنٹ بولٹ غائب ہیں اور مین لائن کے 6 ہزار سے زیادہ جوڑ خطرناک قرار دیے گئے ہیں۔

میاں طارق لطیف نے کم از کم 5 ویلڈنگ ٹیموں کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اس وقت صرف ایک ویلڈنگ ٹیم دستیاب تھی جو ایک دن میں صرف 6 ٹوٹے ہوئے جوڑوں کی ویلڈنگ کر سکتی تھی۔

اُن کے اِس خط کے چند روز بعد روانتی ریلوے اسٹیشن پر ایک ٹرین حادثہ پیش آیا تھا جس میں 62 مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

واضح رہے کہ سکھر سے سبی اور سکھر سے لیاقت پور تک پٹریوں کی خستہ حالی کی وجہ سب سے زیادہ سکھر ڈویژن میں ٹرینوں کے پٹری سے اترنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں