سندھ اسمبلی نے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2023 منظور کرلیا جس میں لوکل کونسلز کے انسپکٹرز کو ایکٹ کے تحت 67 جرائم کا نوٹس لینے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کے دوران لوکل گورنمنٹ ٹیکس اور لیویز کی عدم ادائیگی سمیت دیگر جرائم کے خلاف لوکل کونسلز کے انسپکٹرز کو بااختیار بنانے کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2023 منظور کرلیا گیا۔

ان جرائم میں لوکل گورنمنٹ ٹیکس اور لیویز کی عدم ادائیگی بھی شامل ہے۔

ترمیم شدہ قانون مقامی یونین کونسلز کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بار بار کسی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کریں، اور 50 ہزار روپے سے زیادہ کا جرمانہ یا تین سال تک کی مدت کے لیے قید کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

ترمیمی بل میں شہری نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور شہری بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے بعض جرائم شامل کیے گئے ہیں۔

ترمیمی بل لوکل گورنمنٹ انسپکٹر کو یہ اختیار بھی فراہم کرے گا کہ وہ مقامی حکومت کے ملازم یا ٹھیکیدار یا اس کے عملے کے خلاف مقامی حکومت کے اختیار کے بغیر کوئی ٹیکس، فیس یا جرمانہ زائد وصول کرنے یا غیر قانونی طور پر وصول کرنے پر کارروائی کریں۔

اپوزیشن کی طرف سے بائیکاٹ

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا جہاں صوبائی حکومت نے جلدی میں چھ بل پیش کیے اور منظور کر لیے، جن میں سندھ لوکل گورنمنٹ ترممیم بل بھی شامل تھا جس کو صوبے بھر میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا قرار دیا گیا ہے۔

حکومت کی طرف سے حیدرآباد واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بل 2023، میرپورخاص واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بل 2023، شہید بینظیر آباد (نواب شاہ) واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بل 2023، لاڑکانہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بل 2023، سکھر واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بل 2023، اور سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2023 پیش کیا گیا اور منظور بھی کرلیے گئے۔

حکومت کی طرف سے جیسے ہی پہلا بل پیش کیا گیا تو اپوزیشن کے اراکین نے اجلاس سے قبل بلوں کی کاپیاں فراہم نہ کرنے کی شکایت شروع کردی۔

ایم کیو ایم رکن محمد حسین خان نے کہا کہ وہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشنز کے قیام کے بل کے خلاف نہیں ہیں لیکن جس طرح سے قانون سازی کی جا رہی ہے وہ نامناسب ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک اندھی قانون سازی ہے جس میں اپوزیشن کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔

محمد حسین خان نے کہا کہ اراکین کو اجلاس سے قبل بلوں کی کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں جو کہ قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔

اس کے بعد ایم کیو کے اراکین اسمبلی نے ٹوکن واک آؤٹ کیا اور متحدہ مجلس عمل کے رکن سید عبدالرشید، تحریک لبیک کے مفتی قاسم فخری اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے اراکین بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔

پارلیمانی امور کے وزیر مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ وہ واک آؤٹ سے حیران ہیں کیونکہ بل کا مقصد بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا ہے۔

مکیش چاولہ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے وعدے کے مطابق کونسل کی سطح پر اختیارات کا تبادلہ کر رہی ہے۔

اپوزیشن کے 100 سے زائد بل نظرانداز

بعد ازاں ایوان میں قائد حزب اختلاف رعنا انصار نے کہا کہ ایک طرف حکومت عجلت میں بہت سے بل منظور کروا رہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن ارکان کی جانب سے پیش کیے گئے 100 سے زائد پرائیویٹ بلز پیش نہیں کیے جا رہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے محمد حسین خان، جی ڈی اے کے عارف مصطفیٰ جتوئی اور ایم ایم اے کے سید عبدالرشید نے بہت سے پرائیویٹ بلز جمع کرائے لیکن انہیں پیش نہیں کیا جا رہا۔

ایم کیو ایم، ایم ایم اے اور ٹی ایل پی کی جانب سے کارروائی کا بائیکاٹ کرنے سے قبل اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اگرچہ ہمارے چند بل پرائیویٹ ممبرز ڈے پر ایجنڈے میں شامل کیے جاتے ہیں، لیکن انہیں ٹیک اپ نہیں کیا جاتا۔

وقفہ سوالات

ایجنڈے میں رکھے گئے پانچ میں سے ایک بھی سوال ان اراکین کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں اٹھایا گیا جو انہوں نے معذور افراد کو بااختیار بنانے کے محکمے سے جوابات کے لیے اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرایا تھا۔

جی ڈی اے کی رکن نصرت سحر عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے تحریری سوالات جمع کرائے تھے لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد سے اسمبلی کی کارروائی میں شریک نہیں ہو رہے۔

بعد ازاں اسپیکر آغا سراج درانی نے اجلاس منگل (آج) 10 بجے تک ملتوی کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں