کم وقت میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں سرکرنے والی نارویجن کوہ پیما پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے ’کے ٹو ’ سر کرنے کی مہم کے دوران زخمی پاکستانی شیرپا کی مدد نہیں کی اور ان کے پاس سے گزر گئیں۔

واضح رہے کہ شیرپا ہمالیہ کے علاقوں میں رہتے ہیں جو دنیا بھر سے آنے والے کوہ پیماؤں کی مدد کرتے ہیں جو ہر سال ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دیگر پہاڑوں کو سرکرنے کی کوشش کرتے ہیں، شیرپا کوہ پیماؤں کو چوٹی سر کرنے میں رہنمائی دیتے ہیں اور چونکہ وہ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں اسی لیے انہیں کوہ پیما بھی کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں نارویجن کوہ پیما کرسٹن ہریلا کی جانب سے عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد مذکورہ واقعے کے روز بیس کیمپ میں جشن منانے پر انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

کرسٹن ہریلا نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم نے 27 سالہ پاکستانی شیرپا محمد حسن کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔

معاملہ کیا ہے؟

27 جولائی کو 37 سالہ کرسٹن ہریلا نے نیپالی گائیڈ تینجن ’لاما‘ شیرپا کے ہمراہ کم وقت میں دنیا بھر 8 ہزار میٹر بلند پہاڑوں میں سے 14 چوٹیوں کو سر کرنے والے کوہ پیما بن گئے تھے۔

انہوں نے یہ کارنامہ 3 ماہ اور ایک دن کے اندر مکمل کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا، اس سے قبل 2019 میں نیپال میں پیدا ہونے والے برطانوی ایڈوینچرر نرمل پرجا نے 6 ماہ اور 6 دن نے اندر یہ ریکارڈ بنایا تھا۔

تاہم تنازع اس وقت شروع ہوا جب دیگر کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کرنے کی کوشش کے دوران لی جانے والی ڈرون فوٹیج سوشل میڈیا پر شئیر کی۔

فوٹیج میں دیکھا گیا کہ کرسٹن ہریلا اور ان کی ٹیم تنگ اور مشکل راستوں سے جارہے ہیں، کوہ پیماؤں کا گروہ حسن کے پاس سے گزر جاتا ہے، بعدازاں حسن نے چند گھنٹوں بعد دم توڑ دیا تھا۔

کرسٹن ہریلاکا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے کیمرا مین سمیت دیگر دو لوگ پاکستانی شیرپا کو ڈھائی گھنٹے تک بوٹل نیک سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

یہ فوٹیج کس نے بنائی تھی؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریا سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیماؤں فلپ فلیمگ اور ولہیم سٹینڈل نے یہ فوٹیج سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھیں کہ کس طرح لوگ حسن کے پاس سے گزر کر کے ٹو سر کرنے کی کوشش کے لیے آگے بڑھ رہے ہین۔

تاہم یہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ فوٹیج کس مقام سے اور کس وقت بنائی گئیں۔

یہ دونوں کوہ پیما بھی اس دن کے ٹو سر کرنے کے مشن پر موجود تھے مگر انہوں نے خطرناک موسمی حالات اور طوفان کے باعث اپنا مشن منسوخ کر دیا تھا۔

ولہم سٹینڈل بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ایک شخص کو زندہ حالت میں دیکھا، وہ بوٹل نیک پر لیٹا ہوا تھا، اور لوگ ان کے اوپر سے قدم رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں اس وقت ان کے لیے کوئی ریسکیو مشن نہ تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میں اس وقت واقعی حیران تھا اور افسوس کررہا تھا، میں نے ان حالات کو دیکھ کر رونا شروع کردیا کہ لوگ ایک شخص کو مرنے کے لیے چھوڑ کر ان کے پاس سے گزر رہے ہیں اور کوئی ریسکیو مشن نہیں تھا۔‘

کوہ پیما فلپ فلیمگ نے آسٹریا کے اخبار کو بتایا کہ صرف ایک شخص نے محمد حسن کی مدد کرنے کی کوشش کی اور باقی تمام لوگ تیزی سے چوٹی سر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔

کوہ پیما ولہم سٹینڈل کہتے ہیں کہ بلند پہاڑوں میں ایسی صورتحال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، محمد حسن کے ساتھ دوسرے درجے کے انسان جیسا سلوک کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر حسن کی جگہ کوئی مغربی شخص ہوتا تو اسے فوری طور پر بچایا جاتا، وہاں جو کچھ ہوا وہ شرمناک ہے، ایک زندہ انسان کو مرنے کے چھوڑ دیا گیا تاکہ ریکارڈ قائم کیا جا سکے۔‘

’حسن ہماری ٹیم کا حصہ نہیں تھے‘، کرسٹن ہریلا نے الزامات کی تردید کردی

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر نارویجن کوہ پیما کو تنقید کا سامنا ہے، تاہم کرسٹن ہریلا نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی ٹیم نے حسن کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

کرسٹن ہریلا کہتی ہیں کہ ان کے کیمرا مین گیبریل ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے حسن کو آکسیجن اور گرم پانی فراہم کرنے کی کوشش کی۔

وہ کہتی ہیں کہ میرے پیچھے دیگر کئی سیاح موجود تھے میرا خیال تھا کہ دیگر سیاح حسن کی مدد کررہے ہوں گے اور حسن کو بوٹل نیک سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ بوٹل نیک پر اضافی لوگوں کے آنے سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اس لیے وہ آگے کی طرف بڑھنے لگے۔

انہوں نے بتایا کہ میرے کیمرا مین حسن کو گرم پانی اور آکسیجن فراہم کرنے کے ایک گھنٹے بعد آگے بڑھ گئے کیونکہ ان کی بھی آکسیجن کم ہونے لگی تھی۔

’جب گیبریل میرے پاس پہنچے تو ہم سمجھ گئے کہ شاید حسن زندہ نہیں رہا جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔ ’

جب کرسٹن ہریلا اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کے بعد بیس کیمپ پہنچی تو انہیں معلوم ہوا کہ حسن کا انتقال ہوگیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم کے 4 لوگ محمد حسن کی لاش کو بحفاظت نیچے لے جانے کی حالت میں نہیں تھے۔

کوہ پیما نے کہا کہ کوہ پیمائی کے دوران آپ کسی کو اٹھا کر کیسے سفر کر سکتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے۔

کرسٹن کا کہنا ہے کہ ’حسن ہماری ٹیم کا حصہ نہیں تھے‘ اور انہوں نے حسن کو گرتے وقت بھی نہیں دیکھا تھا، کرسٹن ہریلا کے مطابق ان کے گروہ نے حسن کو زخمی حالت میں دیکھ کر ان کی مدد کرنا چاہی تھی۔

نارویجن کوہ پیما نے کہا کہ حسن کو ’کوہ پیمائی کی مناسبت سے صحیح کپڑے فراہم نہیں کیے گئےتھے، انہوں نے نہ سوٹ پہنا تھا اور نہ ہی دستانے پہنے ہوئے تھے۔

کرسٹن نے بتایا کہ سوال اس کمپنی سے پوچھا جانا چاہیے جس نے حسن کی خدمات حاصل کی تھیں کیونکہ انہیں نہ آکسیجن کی سپلائی دی گئی تھی نہ ہی سردی کی مناسبت سے صحیح کپڑے فراہم کیے گئے تھے۔

انہوں نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ پر لکھا کہ حسن کی موت کا کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے، میں نے یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ غلط معلومات اور نفرت پھیلانے کو روکا جاسکے۔

کرسٹن ہریلا نے کہا کہ انہوں نے نہیں دیکھا کہ حسن کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا، لیکن جب میں اس مقام پر پہنچی تو حسن برف کے دو پتھروں کے ساتھ رسی سے الٹے لٹکے ہوئے تھے، انہوں نے مناسب سوٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا اور پیٹ نہیں ڈھکا ہوا تھا۔

واضح رہے کہ 28 جولائی کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ کے ٹو سر کرنے کے دوران پاکستانی شیرپا محمد حسن ’بوٹل نیک‘ پر برفانی تودے کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئے تھے، ساتھی کوہ پیما نے محمد حسن کو ریسکیو کیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

رواں برس بڑی تعداد میں کوہ پیما چوٹی سر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، 23 جولائی کو 52 کوہ پیماؤں نے نانگا پربت سر کی تھی، جن میں 11 پاکستانی بھی شامل تھے۔

کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین اور خطرناک چوٹی ہے جہاں ہر چار میں سے میں ایک کوہ پیما جان کی بازی ہار جاتا ہے۔

پاکستان الپائن کلب کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق 1954 سے اب تک 87 سے زائد کوہ پیما کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں