الیکشن کمیشن کیلئے صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کا معاملہ پیچیدہ ہونے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 15 اگست 2023
قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن ہر ضلع کے حصے کا تعین کرتا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن ہر ضلع کے حصے کا تعین کرتا ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے حال ہی میں نوٹیفائیڈ شدہ نتائج کے تحت ملک بھر کے اضلاع کے بڑھے اور کم ہوئے حصے میں بہت بڑی عدم مماثلت، صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کی آئندہ مشق کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے اعداد و شمار کے مکمل تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کے برعکس، صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تازہ حد بندی درجنوں اضلاع کو متاثر کر سکتی ہے۔

چونکہ قومی اسمبلی کی غیر موجودگی میں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی نشستوں کی تعداد میں اضافے کے لیے آئینی ترمیم ممکن نہیں اس لیے الیکشن کمیشن کو ہر ضلع کے کم یا زیادہ ہونے والے حصے کو ہر اسمبلی کی موجودہ تعداد میں شامل کرنا ہوگا۔

قانون میں ایک حالیہ ترمیم جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دو ملحقہ اضلاع کے حصوں کو ملا کر انتخابی حلقہ بندیوں کی اجازت دیتی ہے ممکنہ طور پر اس مشق کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔

مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا تو اس شق کے تحت دوبارہ طے کردہ حدود کا اثر اسے اب تک کی گئی سب سے متنازع حد بندیوں میں سے ایک بنا سکتا ہے۔

رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے یہ بات تسلیم کی لیکن اصرار بھی کیا کہ اگر مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو نئی شق یکساں حلقے بنانے میں مدد دے سکتی ہے جس میں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر فرق ہے۔

صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے 12 کروڑ 76 لاکھ 68 ہزار اور صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں والے صوبے پنجاب کے لیے فی نشست کوٹہ 4 لاکھ 29 ہزار 929 بنتا ہے۔

قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن ہر ضلع کے حصے کا تعین کرتا ہے اور ان کی مجموعی آبادی کو متعلقہ صوبائی اسمبلی کے کوٹے کے ساتھ تقسیم کر کے نوٹیفائیڈ کرتا ہے، 0.5 سے زیادہ کے حصے کو ایک نشست کے طور پر شمار کیا جائے گا اور 0.5 سے کم کے حصے کو نظر انداز کیا جائے گا۔

پنجاب

پنجاب میں دو اضلاع کا حصہ بڑھ گیا ہے جب کہ 4 اضلاع میں ایک ایک نشست کھونے کا امکان ہے۔

راجن پور، جس کی آبادی 23 لاکھ 80 ہزار ہے اور اس کا حصہ 5.53 ہے، ایک اور نشست کے لیے کوالیفائی کرتا ہے اور یوں اس کے مجموعی حلقے 5 سے 6 ہو جائیں گے۔

اگر راؤنڈ آف کے اصول کا اطلاق کیا جائے تو بھکر کی سیٹیں بھی 4.55 کے شیئر کے ساتھ 4 سے بڑھ کر 5 ہو جائیں گی کیوں کہ ضلع کی آبادی 19 لاکھ 50 ہزار ہے۔

تاہم راولپنڈی، ملتان، سیالکوٹ اور لودھراں وہ 4 اضلاع ہیں جہاں ایک ایک نشست کم ہوئی ہے۔

راولپنڈی میں صوبائی اسمبلی کی 15 نشستیں تھیں، اس کی آبادی 61 لاکھ 10 ہزار اور حصہ 14.23 ہے، جو اسے صرف 14 نشستوں کا اہل بناتا ہے۔

53 لاکھ 60 ہزار کی آبادی کے ساتھ ملتان کا حصہ 13.47 ہے، اور اگر اس کا ایک حلقہ ملحقہ ضلع کے ساتھ نہ ملایا جائے تو یہ اس کی نشستوں کی تعداد 13 تک لے جا سکتا ہے۔

اسی طرح سیالکوٹ کا حصہ بھی 44 لاکھ 90 ہزار کی آبادی اور 10.46 کے ساتھ 11 سے کم ہو کر 10 نشستوں پر آنے والا ہے۔

اسی طرح 19 لاکھ 20 ہزار کی آبادی اور 4.49 کے حصے کے ساتھ لودھراں کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 5 سے کم ہو کر 4 رہ گئی ہیں۔

سندھ

سندھ، جس کی کُل آبادی 5 کروڑ 56 لاکھ 90 ہزار ہے اور صوبائی اسمبلی میں 130 نشستیں ہیں، فی نشست کوٹہ 4 لاکھ 28 ہزار 431 ہے۔

کراچی کے 3 اضلاع ایک، ایک اضافی نشست کے اہل ہیں لیکن صرف دو اضلاع اپنا حصہ کھو رہے ہیں۔

علاوہ ازیں کراچی کے وسطی اور مشرقی اضلاع کا حصہ بڑھ گیا ہے، ضلع ملیر بھی ایک اضافی نشست حاصل کرنے کا مستحق ہے، جس کی آبادی 24 لاکھ ہے اور اس کا حصہ 5.61 ہے۔

دوسری جانب سانگھڑ اور خیرپور اضلاع بھی ایک، ایک نشست کھونے کے لیے تیار دکھائی دے رہے ہیں، جہاں صوبائی اسمبلی کی نشستیں بالترتیب 6 سے کم ہو کر 5 اور 7 سے کم ہو کر 6 رہ جائیں گی۔

23 لاکھ نفوس کی آبادی کے ساتھ سانگھڑ کا حصہ 5.38 ہے جب کہ خیرپور کی آبادی 25 لاکھ 90 ہزار ہے اور اس کا حصہ 6.06 ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان

صوبہ خیبرپختونخوا کی آبادی 4 کروڑ 8 لاکھ 50 ہزار ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کی 99 نشستیں ہیں، اور اب فی نشست کوٹہ 4 لاکھ 12 ہزار 687 ہوگا۔

یہاں اس مرتبہ صوبائی دارالحکومت سمیت ایک درجن سے زائد اضلاع کا حصہ کم ہوا ہے اور کوئی بھی بڑھے ہوئے حصہ کا اہل نہیں ہے، اسی طرح بلوچستان میں بھی یہ معاملہ ہے۔

خیبر پختونخوا میں پشاور دو نشستیں کھوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جس سے تعداد 14 سے 12 ہو جائے گی۔

دیگر جن اضلاع کی ایک، ایک نشست کم ہوگی ان میں بنوں (4 سے 3)، ڈی آئی خان (5 سے 4)، بٹگرام (2 سے 1)، مانسہرہ (5 سے 4)، ہنگو (2 سے 1)، کوہاٹ (4 سے 3)، بونیر (3 سے 2)، زیریں دیر (5 سے 4)، مردان (8 سے 7)، چارسدہ (5 سے 4)، مہمند (2 سے 1) اور نوشہرہ (6 سے 4) شامل ہیں اور ایک نشست کے حامل ضلع دیر بالا کا حصہ بھی اب 0.47 ہو گیا ہے۔

تاہم کسی بھی ضلع کا حصہ زیادہ نہیں ہوا اور اس طرح کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں ہے، جب تک کہ ضلع کی حدود سے باہر جانے والی حلقہ بندیوں کا فیصلہ نہ کیا جائے۔

بلوچستان میں ایک کروڑ 48 لاکھ 90 ہزار کی آبادی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں 51 ہیں, یوں فی سیٹ کوٹہ اب 2 لاکھ 92 ہزار 47 ہے۔

یہاں پنجگور اور کچھی اضلاع ہیں جو ایک ایک اضافی نشست کے لیے کوالیفائی کرتے ہیں جس سے ان کی نشستوں کی تعداد 2، 2 ہوجائے گی جبکہ بارکھان، موسیٰ خیل، زیارت اور شیرانی اضلاع، جن کا پہلے 0.5 حصہ تھا، اب اپنی اپنی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اہل ہیں۔

دریں اثنا ژوب کا حصہ 1.5 سے 1.0 تک گر گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں