عسکریت پسندی کے معاملے پر پاکستان، افغانستان رابطے میں ہیں، عہدیدار

اپ ڈیٹ 22 اگست 2023
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شوکت عباس نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شوکت عباس نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

خیبر پختونخوا کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان عسکریت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انٹیلی جنس رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ عسکریت پسند پاکستان میں سرگرمیاں انجام دینے کے بعد افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شوکت عباس نے بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں صحافیوں کو بتایا کہ حل نکالنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الریاستی رابطہ موجود ہے اور انتہائی سنجیدہ مذاکرات جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے اُس خودکش حملہ آور کے رشتہ داروں کو تلاش کیا، جس نے 9 اگست کو باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو نشانہ بنایا، اُس بمبار کی شناخت کے لیے بھی کام جاری ہے جس نے 30 جولائی کو قبائلی ضلع میں جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

انہوں نے ضلع صوابی میں 7 سے 8 سال سے سرگرم عسکریت پسندوں کے سلیپر سیل کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جے یو آئی (ف) پر حملے کے الزام میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن پورے نیٹ ورک کا قلع قمع کرنا ابھی باقی ہے، غالب امکان ہے کہ خودکش حملہ آور افغان شہری تھا۔

شوکت عباس نے بتایا کہ 7 اپریل کو صوابی کے علاقے یار حسین میں ایک پولیس اہلکار اور 2 کانسٹیبل ایک کار میں سفر کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار عسکریت پسندوں نے اندر دستی بم پھینکا جس سے 2 افراد شہید اور ایک زخمی ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر سحر خان اور کانسٹیبل گل نصیب شہید جبکہ کانسٹیبل اعجاز زخمی ہوئے، تحقیقات کے دوران حملے کی سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کر لی گئی۔

اے آئی جی نے کہا کہ سی ٹی ڈی کو بالآخر ایک مشتبہ عسکریت پسند کی موجودگی میں خفیہ اطلاع ملی اور ایک ٹیم نے ضلع صوابی کے رہائشی مشتبہ عسکریت پسند ارشد کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپہ مارا۔

انہوں نے بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران ارشد نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں عطا اللہ اور شیر علی کو شناخت کیا جو دونوں صوابی کے رہائشی ہیں، اس نے پولیس کو بتایا کہ حملے کی منصوبہ بندی اس کے حجرے پر کی گئی تھی، عطا اللہ، شیر علی اور عاقب جاوید بھی حملے میں ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ شیر علی کو گرفتار کر کے اس سے ایک دستی بم اور ایک پستول برآمد کیا گیا، دونوں مشتبہ عسکریت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سیف اللہ گروپ سے ہے، بقیہ 2 مشتبہ عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، جن میں عطا اللہ اور عاقب شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کی کارروائی کے ماسٹر مائنڈ کی شناخت عابدین کے نام سے ہوئی ہے جو عطا اللہ کا بھائی ہے اور اس وقت افغانستان میں موجود ہے، عطا اللہ کالعدم ٹی ٹی پی کے محسن قادر گروپ کا رکن ہے، وہ ایک مقامی مدرسے میں معلم تھا اور طلبہ کی برین واشنگ میں ملوث تھا، وہ پاکستان میں پلا بڑھا اور بعد میں افغانستان چلا گیا۔

دریں اثنا پولیس سب انسپکٹر گل جلال، جو صوبائی دارالحکومت میں پولیس اسسٹنس لائنز میں تعینات تھے، گزشتہ روز گولی لگنے سے دم توڑ گئے۔

پولیس نے بتایا کہ گل جلال جمعہ کو اس وقت گن حملے کی زد میں آگئے جب وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جا رہے تھے، انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لوتے ہوئے دم توڑ گئے۔

شہید پولیس اہلکار کی نماز جنازہ گزشتہ روز پولیس ہیڈکوارٹرز پشاور میں ادا کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں