صارفین سے جولائی میں استعمال شدہ بجلی پر 2.07 روپے فی یونٹ اضافی وصول کرنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 23 اگست 2023
بجلی صارفین کو راحت ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا — فائل فوٹو: اے ایف پی
بجلی صارفین کو راحت ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا — فائل فوٹو: اے ایف پی

یکم جولائی سے یکساں ٹیرف میں 26 فیصد اضافے کے باوجود بجلی صارفین کو راحت ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا کیونکہ سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے اگلے ماہ اپنے صارفین سے تقریباً 30 ارب روپے مزید وصول کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈسکوز نے اپنے کمرشل ایجنٹ ’سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے)‘ کے ذریعے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو جولائی میں استعمال ہونے والی بجلی پر ستمبر کے بلوں میں 2 روپے 7 پیسے فی یونٹ اضافی فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) چارج کرنے کی مشترکہ درخواست دائر کردی ہے۔

نیپرا نے درخواست کو قبول کرتے ہوئے 30 اگست کو عوامی سماعت طلب کی ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا ٹیرف میں مجوزہ اضافہ ماہانہ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ میکانزم کے مطابق جائز ہے اور جولائی میں یونٹس کے استعمال میں میرٹ کی پیروی کی گئی یا نہیں۔

منظوری ملنے کی صورت میں ڈسکوز کی جانب سے اپنے صارفین سے جولائی میں استعمال ہونے والی بجلی پر 2 روپے 7 پیسے فی یونٹ اضافی فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کے حساب سے تقریباً 29 ارب 80 کروڑ روپے وصول کیے جائیں گے، حالانکہ بجلی کی تقریباً 64 فیصد پیداوار مقامی سستے ایندھن سے ہوئی جو جون میں 58 فیصد، مئی میں 56 فیصد اور اپریل میں 54 فیصد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

یہ اضافہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ گزشتہ ماہ بنیادی اوسط ٹیرف میں 7.5 روپے فی یونٹ سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، علاوہ ازیں ملک بھر کے ہائیڈرو پاور پلانٹس نے جولائی میں مجموعی طور پر نیشنل پاور گرڈ میں 37 فیصد سے زیادہ بجلی شامل کی ہے جو جون میں 26.96 فیصد تھی۔

’ہائیڈرو پاور میں ایندھن کی کوئی قیمت نہیں‘

جون میں 18.55 فیصد کے مقابلے میں جولائی میں ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداوار 19.67 فیصد کے حساب سے قدرے بہتر رہی لیکن یہ مئی کے مقابلے میں کم ہے جب یہ 24.33 فیصد تھی۔

اس کے باوجود ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداوار پن بجلی کے بعد بدستور دوسری پوزیشن پر برقرار ہے، جولائی میں 14.69 فیصد کے ساتھ تیسرا سب سے بڑا حصہ کوئلے کے ذریعے پیداوار کا رہا، جو جون میں 17.75 فیصد حصہ رہا تھا۔

جولائی میں جوہری توانائی سے بجلی کی پیداوار قدرے بہتری کے بعد 14.2 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو جون میں 13.54 فیصد اور مئی میں 12.6 فیصد تھی، تاہم یہ اپریل میں 19 فیصد اور فروری میں 24.28 فیصد کے مقابلے میں کم رہی۔

گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کی پیداوار میں کمی کا سلسلہ جاری رہا اور جولائی میں اس نے نیشنل گرڈ میں صرف 7.61 فیصد بجلی شامل کی جو جون میں 8.54 فیصد، مئی میں 10.35 فیصد اور اپریل میں 12 فیصد تھی۔

فرنس آئل کے ذریعے بجلی کی پیداوار کی ایندھن کی قیمت جولائی میں بڑھ کر 28.7 فی یونٹ ہو گئی جو جون میں 26.1 روپے فی یونٹ اور مئی میں 23.24 روپے فی یونٹ تھی۔

ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداواری لاگت جون میں 24.07 روپے کے مقابلے میں جولائی میں بڑھ کر 24.43 روپے فی یونٹ ہو گئی، فرنس آئل کے ذریعے بجلی کی پیداوار جون میں 5.4 فیصد کے مقابلے میں جولائی میں مجموعی پیداوار کا 2 فیصد تھی۔

اضافے کی درخواست کی وجہ

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے ڈسکوز کی جانب سے دعویٰ کیا کہ جولائی میں صارفین سے ایندھن کی قیمت 6.89 روپے فی یونٹ وصول کی گئی تھی لیکن اصل قیمت 8.96 روپے فی یونٹ ہوگئی، اس لیے فی یونٹ 2.07 روپے اضافی چارج کرنے کی اجازت دی جائے۔

حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گیس سے بجلی کی پیداوار کی لاگت جولائی میں بڑھ کر 13.7 روپے فی یونٹ ہوگئی جبکہ یہ جون میں 11.74 روپے فی یونٹ تھی۔

دوسری جانب کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداواری لاگت جون میں 14.05 روپے فی یونٹ کے مقابلے جولائی میں کم ہو کر 11.54 روپے فی یونٹ رہ گئی۔

قابل تجدید توانائی کے 3 ذرائع (ہوا، بائیوگیس اور شمسی توانائی) نے مل کر جولائی میں نیشنل گرڈ میں تقریباً 4.5 فیصد حصہ ڈالا، جس کا حصہ جون میں 5.6 فیصد اور مئی میں 6.6 فیصد رہا تھا، ہوا اور شمسی توانائی کی کوئی ایندھن لاگت نہیں ہوتی جبکہ بائیو گیس کے ذریعے پیداوار کی لاگت تقریباً 6 روپے فی یونٹ پر برقرار ہے۔

نیپرا کی جانب سے منظوری کے بعد ایف سی اے میں اضافہ صارفین کے ستمبر کے بلوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا، ملک بھر میں لاگو ٹیرف کے مطابق ایف سی اے کا ہر ماہ جائزہ لیا جاتا ہے اور عام طور پر صرف ایک ماہ تک صارفین کے بلوں پر لاگو ہوتا ہے۔

منظوری کی صورت میں یہ اضافہ لائف لائن صارفین، 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین، زرعی صارفین اور الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنز کے سوا تمام صارفین پر لاگو ہو گا۔

ماہانہ ایف سی اے کے حساب سے یہ ایڈجسٹمنٹ ایسے گھریلو صارفین پر بھی لاگو ہوگا جن کے پاس ٹائم آف یوز (ٹی او یو) میٹر ہوتے ہیں، چاہے ان کی بجلی کی کھپت جتنی بھی ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں