حکومت نے بجلی کی فی یونٹ قیمت 3.55 روپے بڑھانے کی درخواست دے دی

اپ ڈیٹ 24 اگست 2023
بجلی کی طلب میں 5 فیصد اضافے کی توقع ظاہر کی گئی تھی لیکن یہ 13 فیصد کم ہو گئی— فائل/فوٹو: اے ایف پی
بجلی کی طلب میں 5 فیصد اضافے کی توقع ظاہر کی گئی تھی لیکن یہ 13 فیصد کم ہو گئی— فائل/فوٹو: اے ایف پی

بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت نے بظاہر پاور کمپنیز کو کھپت کم ہونے کے نتیجے میں اضافی کیپیسٹی چارجز کا بوجھ صارفین پر منتقل کرنے کے منحوس چکر میں ڈال دیا ہے، جس کے سبب حکومت ’قیمت کے جھٹکے‘ کو کم کرنے کے لیے تین مہینے کے بجائے 6 مہینے کے لیے 146 ارب روپے سہ ماہی چارجز عائد کرنے کی اجازت طلب کرنے پر مجبور ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے اپریل تا جون 2023 کے لیے صارفین کے لیے 5.40 روپے فی یونٹ اضافی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی حکومتی درخواست پر منعقدہ عوامی سماعت کے دوران سامنے آئی، جب پاور ڈویژن نے اپنی درخواستوں سے علیحدگی اختیار کی۔

اس میں درخواست کی گئی کہ صارفین پر تین مہینے کے لیے 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ کے بجائے 6 ماہ کے لیے 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے تاکہ ان پر جھٹکے کو کم کیا جائے جو پہلے ہی بنیادی قومی ٹیرف میں 26 فیصد بڑھانے کے اثرات سے شدید پریشان ہیں۔

پاور ڈویژن کے حکام نے ریگولیٹر کو درخواست کی کہ اس کے علاوہ ستمبر کے بعد بھی 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ اضافی چارج عائد کیے جائیں، جب ایک روپے 24 پیسے فی یونٹ کی موجودہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ختم ہو جائے گی، اس طرح لاگت میں مزید کمی آئے گی، 6 مہینے (اکتوبر 2023 تا مارچ 2024) کے لیے ٹیرف میں خالص اضافہ 2 روپے 31 پیسے فی یونٹ ہوگا۔

عوامی سماعت کی صدارت کرنے والے چیئرمین نیپرا وسیم مختار نے کہا کہ بجلی کے 5 ارب یونٹس کی فروخت کم ہونے کے نتیجے میں بظاہر باقی صارفین پر تقریباً 150 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا، جو خطرناک صورتحال ہے۔

ممبر نیپرا رفیق اے شیخ نے پاور ڈویژن سے مطالبہ کیا کہ وہ 6 مہینے کے لیے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی تحریری درخواست جمع کروائیں۔

پاور ڈویژن نے کے-الیکٹرک کے صارفین کے لیے الگ الگ سماعت کے عمل کے بغیر یکساں نرخوں کے بیک وقت اطلاق کا مطالبہ کیا جیسا کہ وفاقی حکومت نے شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی کابینہ کی طرف سے سبکدوش ہونے سے ایک روز قبل منظور کردہ پالیسی گائیڈ لائن کے ذریعے ہدایت کی تھی۔

نیپرا کی رکن آمنہ احمد نے نشاندہی کی کہ انہیں پیش کی گئی پالیسی گائیڈ لائنز میں صرف کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری ہے، وفاقی کابینہ کی نہیں۔

تاہم، حکومتی ٹیم نے اصرار کیا کہ وفاقی کابینہ نے ای سی سی کے فیصلے کی توثیق کی تھی اور دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔

نیپرا نے دونوں درخواستوں (6 ماہ کیلئے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ، اور کے الیکٹرک صارفین پر بھی یکساں اطلاق) پر فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور تحریری درخواست، ریکارڈز اور متعلقہ قانونی معاملات کی روشنی میں جائزہ لینے کا وعدہ کیا۔

نیپرا کے چیئرمین اور دیگر چار اراکین (رفیق شیخ، مطاہر نیاز، مقصود انور اور امینہ احمد) نے تقریباً متفقہ طور پر بجلی کی بڑھتی لاگت پر تحفظات کا اظہار کیا جو نہ صرف مختلف درجوں کے صارفین بلکہ حکومت کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔

انہوں نے ڈسٹری بیوشن کمپنیز (ڈسکو) کے چیف ایگزیکٹو افسران کی 13 فیصد بجلی کی فروخت میں کمی کے پیچھے واضح وجوہات کی کمی پر زیادہ تحفظات کا اظہار کیا۔

مطاہر نیاز رانا نے بتایا کہ بجلی کی لاگت میں مسلسل اضافہ سنگین تشویش کا معاملہ ہے۔

ڈسکوز اور پاور ڈویژن کے مطابق اضافہ سہ ماہی لاگت کی ایک اہم وجہ متعلقہ حکام کی جانب سے حوالہ جاتی نرخ مقرر کرتے وقت تخمینے کے مقابلے میں بجلی کی 13 فیصد کم فروخت ہے، بتایا گیا ہے کہ اپریل تا جون کے دوران 37 ہزار 645 گیگا واٹ (جی ڈبلیو ایچ) کا تخمینہ لگایا گیا تھا تاہم صرف 32 ہزار 661 گیگا واٹ بجلی فروخت ہوسکی۔

ممبر رفیق شیخ نے کہا کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ ڈسکوز کو یہ واضح نہیں ہے کہ طلب میں کمی کیوں ہوئی لیکن اگر ڈسکوز کے دعوے کے مطابق انڈسٹری کو اس حد تک بند کر دیا گیا ہے تو یہ ملک کے لیے انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔

نیپرا، پاور ڈویژن اور ڈسکوز سمیت تقریباً تمام اسٹیک ہولڈرز عوامل کے بارے میں بے یقینی کا شکار تھے اور انہوں نے صنعتی کارکردگی سمیت اعداد و شمار کو تفصیل سے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بات نمایاں ہے کہ بجلی کی طلب میں 5 فیصد اضافے کی توقع ظاہر کی گئی تھی لیکن یہ 13 فیصد کم ہو گئی، نیپرا کے ممبران اس حقیقت پر یکساں طور پر فکر مند تھے کہ جولائی 2023 کے آخر تک نئے کنکشنز کے لیے 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد درخواستیں ڈسکوز کے پاس زیر التو تھیں حالانکہ طلب کم ہو رہی تھی، جس کے نتیجے میں کیپیسٹی چارجز کا زیادہ اثر پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں