بدترین سیلاب کے ایک سال بعد بھی لاکھوں پاکستانی بچوں کو امداد کی ضرورت ہے، یونیسف

اپ ڈیٹ 25 اگست 2023
یونیسف نے کہا کہ اگست 2022 سے اب تک یونیسف اور شراکت دار اداروں نے 36 لاکھ افراد کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کی ہیں — فائل فوٹو
یونیسف نے کہا کہ اگست 2022 سے اب تک یونیسف اور شراکت دار اداروں نے 36 لاکھ افراد کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کی ہیں — فائل فوٹو

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے ’یونیسف‘ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں اور ہنگامی حالت کے اعلان کے ایک سال بعد بھی لاکھوں بچے انسانی امداد اور ضروری خدمات تک رسائی کے منتظر ہیں۔

یونیسف نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بحالی اور آبادکاری کی کوششوں کو ابھی تک درکار مالی اعانت فراہم نہیں کی جاسکی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ رواں سال مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ آبادیوں کے لیے پہلے سے ہی مشکل حالات مزید بدتر ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں اب تک 87 بچے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔

یونیسف کے مطابق اب بھی 80 لاکھ افراد جن میں سے نصف بچے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 15 لاکھ سے زائد بچوں کو زندگی بچانے والی خوراک کی ضرورت ہے، جبکہ یونیسف کی اپیل میں زندگیاں بچانے کی کوششوں کے لیے مانگی گئی 17 کروڑ 35 لاکھ ڈالر کی امداد کا محض 57 فیصد فراہم ہوسکا ہے۔

پاکستان میں یونیسف کے سربراہ عبداللہ فاضل نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے خطرات کے شکار بچوں نے ایک سال خوف کے سایے تلے گزارا ہے اور انہوں نے اپنے پیاروں، گھروں اور اسکولوں کو کھویا ہے۔

عبداللہ فاضل نے کہا کہ جیسے ہی مون سون کی بارشیں شروع ہوئی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہیوں کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے، بحالی کی کوششیں جاری ہیں لیکن بہت سے لوگوں تک اب بھی کوئی مدد نہیں پہنچ سکی ہے اور پاکستان کے بچوں کو فراموش کیے جانے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، جن میں سے نصف بچے تھے اور سیلاب سے اہم انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچا یا مکمل تباہ ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں 30 ہزار اسکول، 2 ہزار صحت کے مراکز اور 4 ہزار 300 پانی کی فراہمی کی سہولیات شامل ہیں۔

عبداللہ فاضل نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی بدولت آنے والی آفت نے متاثرہ اضلاع میں بچوں اور خاندانوں کو پہلے سے درپیش عدم مساوات کو مزید گہرا کر دیا ہے، ایک تہائی بچے سیلاب آنے سے پہلے ہی اسکولوں سے باہر تھے جبکہ غذائی قلت ہنگامی سطح تک پہنچ چکی تھی اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات تک رسائی تشویش ناک حد تک محدود تھی۔

یونیسف نے کہا کہ اگست 2022 سے اب تک یونیسف اور شراکت دار اداروں نے 36 لاکھ افراد کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے ان علاقوں میں جہاں پانی کی فراہمی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے یا تباہ ہوا ہے وہاں 17 لاکھ افراد کے لیے صاف اور محفوظ پانی تک رسائی کو ممکن بنایا گیا ہے، 5 لاکھ 45 ہزار بچوں اور صحت کے اہلکاروں کو ذہنی صحت اور نفسیاتی مدد کی خدمات تک رسائی حاصل دی گئی ہے اور 2 لاکھ 58 ہزار سے زائد بچوں کے لیے تعلیم کی سہولیات کی فراہمی میں تعاون کیا گیا ہے۔

یونیسف نے کہا کہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران یونیسف نے 21 لاکھ بچوں میں شدید غذائی قلت کی جانچ کی، جو ایک ایسی حالت ہے جس میں بچے اپنے قد کے لحاظ سے بہت پتلے ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک لاکھ 72 ہزار بچوں کا ان کی زندگیاں بچانے کے لیے علاج کیا جار ہا ہے لیکن اس کے باوجود ضروریات درکار و سائل کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں۔

یونیسف کے سربراہ عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ ادارہ، حکومت پاکستان اور شراکت دار اداروں پر زور دیتا ہے کہ وہ بچوں اور خاندانوں کے لیے بنیادی سماجی خدمات میں اضافی سرمایہ کاری کریں اور ان کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف پائیدار نظام دوبارہ تعمیر کرنے ہوں گے جو عدم مساوات کو پر کریں اور موسمیاتی تبدیلی سے درپیش خطرات کو کم کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے بچوں کو نہیں بھول سکتے، سیلاب کا پانی اُتر گیا ہے، لیکن اس موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار علاقے میں ان کی پریشانیاں ابھی برقرار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں