سندھ ہائیکورٹ: موہٹہ پیلس کیس میں شہریوں، ٹرسٹ کے فریق بننے کی درخواستیں مسترد

اپ ڈیٹ 25 اگست 2023
سندھ ہائی کورٹ نے اکتوبر 2021 میں موہٹہ پیلس کو میڈیکل کالج بنانے کا حکم دیا تھا—فائل/فوٹو: وائٹ اسٹار
سندھ ہائی کورٹ نے اکتوبر 2021 میں موہٹہ پیلس کو میڈیکل کالج بنانے کا حکم دیا تھا—فائل/فوٹو: وائٹ اسٹار

سندھ ہائی کورٹ نے اولڈ کلفٹن کے شہریوں اور موہٹہ پیلس گیلری ٹرسٹ کی جانب سے موہٹہ پیلس کو گرلز میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج بنانے کیس میں فریق بننے کی درخواستیں مسترد کردیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ذوالفقار احمد خان نے 15 اگست کو سماعت کے بعد محفوظ فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا کہ کسی نئے فریق کو شامل کرنا میرٹ کے منافی ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اولڈ کلفٹن کے رہائشیوں کے وکیل ارشد طیب علی نے دلائل دیے کہ اگر اس جائیداد میں کالج بنانے کی اجازت دی گئی تو اس سے ٹریفک کا دباؤ ہوگا اور ٹریفک جام ہوگا، اس کے علاوہ ان کے حقوق اور پرائیویسی متاثر ہوگی۔

دوسرے فریق کے وکیل عابد حسین نے مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل سماعت کے اہم اور باقاعدہ فریق ہیں کیونکہ درخواست گزار بھی اس جائیداد کے قانونی مدعیان میں سے ایک ہیں لیکن موجودہ مدعی نے عنوان میں ترمیم کرکے اصل بات چھپائی اور قانونی وراچٹ بھی چھپائی ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2021 میں سندھ ہائی کورٹ نے قصر فاطمہ المعروف موہٹہ پیلس کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا کہ یہان پر لڑکیوں کے لیے میڈیکل اور ڈینٹل کالج بنایا جائے گا، جس پر کلفٹن میں قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کی تاریخی جائیداد پر طویل تنازع ابھر کر سامنے آیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو فاطمہ جناح کی جائیداد کے پڑوسیوں، صوبائی حکومت اور موہٹہ پیلس گیلری ٹرسٹ نے چیلنج کیا تھا۔

جسٹس ذوالفقار احمد کی جانب سے اپیلیں مسترد کرتے ہوئے جاری فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرسٹ کے وکیل فیصل صدیقی نے دلیل دی تھی کہ اس سے حکومت سندھ نے تشکیل دیا تھا اور وہی اس کی دیکھ بھال کر رہی لہٰذا ٹرسٹ بھی سماعت میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ اور اہم فریق ہے۔

جسٹس ذوالفقار احمد خان نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ ایک واضح پوزیشن ہے کہ سماعت کے لیے صرف وہ افراد ضروری اور باقاعدہ فریق ہیں جن کا مفاد اس قانونی چارہ سے جڑا ہوا ہے اور ان کی غیر حاضری میں معاملے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اہم فریق وہ ہیں جو سماعت میں شامل ہوتے رہے ہیں اور ان کی غیرحاضری سے مؤثر فیصلہ نہیں ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کو نئی فریق شامل کرنے کی اجازت دینے والے کوڈ آف سول پروسیجر کے آرڈر ون رول 10 کا مقصد یہ تھا کہ سماعت اور قانونی موشگافیوں میں طوالت سے بچا جائے اور تمام فریقین کو عدالت کے سامنے مکمل موقع فراہم کیا جائے۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ جب عدالت نتیجے تک پہنچتی ہے کہ فریق بننے کے لیے درخواست دینے والا شخص اہم فریق تھا تو صرف اسی صورت میں عدالت مذکورہ شخص کو سماعت کا حصہ بننے کی اجازت دے سکتی ہے۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ عدالت قائداعظم کے اثاثوں سے متعلق ایک اور مقدمہ 1971 سے سن رہی ہے جو اپنے آخری مرحلے میں ہے، اس کیس میں قانونی ورثا نے پہلے مان لیا ہے کہ اگر موہٹہ پیلس فاطمہ جناح کی وصیت کے مطابق میڈیکل یا ڈینٹل کالج بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو انہیں کوئی شکایات یا دعویٰ نہیں ہوگا۔

کالج کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ قصر فاطمہ سے کچھ ہی فاصلے پر کثیرالمنزلہ عمارات کی بڑی تعداد ہے یا زیر تعمیر ہے لیکن موجودہ درخواست گزاروں کی جانب سے اس سرگرمی پر کوئی شکایت نظر نہیں آ رہی ہے۔

ٹرسٹ کے انتظام پر دی گئی دلیل پر کہا گیا کہ عدالت پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ موہٹہ پیلس نجی جائیداد کے طور پر صرف مینٹیننس اور ٹرسٹ کی تشکیل کے لیے حکومت سندھ کے حوالے سے کیا گیا تھا، جس کے لیے انتظامی سماعت زیرالتوا ہے جو بددیانتی پر مبنی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جب بابائے قوم اور مادر ملت نے تقریباً ایک کروڑ 97 لاکھ ایکڑ کا رقبہ پاکستان کے عوام کو دیا ہے تو پھر وہ ان کی وصیت اور منشا سے استعمال کرنے دیں، لاکھوں ایکڑ زمین میں سے جب قصر فاطمہ میں صرف ایک ایکڑ زمین بانیان کی خواہش اور وصیت کے مطابق استعمال کی جا رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ہم کتنے ناشکر ہیں کہ ہم خواتین میں دانش اور علم پھیلانے کے اچھے مقصد کے لیے استعمال پر بھی اعتراض کر رہے ہیں۔

جسٹس ذوالفقار احمد کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں نہ تو ٹرسٹ اور نہ ہی علاقے کے رہائشی باقاعدہ یا اہم فریق ہیں کیونکہ یہ نجی جائیداد کی انتظامیہ سے متعلق ہے اس لیے کسی کا اس سے تعلق نہیں بنتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مذکورہ درخواست گزار نہ تو جائیداد کے مالکان کے ورثا ہیں اور نہ ہی مرحومین سے ان کا کوئی رشتہ ہے اور اگر ان درخواست گزاروں کو اہم یا باقاعدہ فریق کے طور پر لیا جاتا ہے تو موجودہ مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو اپنے طور پر زمین کی انتظامیہ ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اس معاملے پر شہادتیں پہلے ہی ریکارڈ کی گئی ہیں اور کیس حتمی دلائل کے لیے سنا جا رہا ہے، اس لیے کسی بھی نئی پارٹی کی شمولیت میرٹ سے انحراف ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں