ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی خطرناک حد تک گراوٹ کا ذمہ دار گرے مارکیٹ اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بینکنگ اور کرنسی کے شعبوں میں واضح مداخلت کو ٹھہرایا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی امر ہے کہ آئی ایم ایف مبینہ طور پر ملک کے مالیاتی فریم ورک میں گہرائی تک ملوث ہو گیا ہے اور مقامی ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کے ساتھ باریکی سے بات چیت کر رہا ہے۔

ایک معروف کرنسی ڈیلر نے الزام عائد کیا کہ یہ بڑھتی ہوئی مصروفیت حکومت پر آئی ایم ایف کے عدم اعتماد کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف اب براہ راست بینکنگ اور اوپن مارکیٹس سے ڈالر ریٹ کا پتا لگاتا ہے۔

ایک سینئر بینکر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے لوگ پاکستان میں ایکسچینج کمپنیوں اور بینکرز کے ساتھ نچلی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

ایک نجی بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح تبادلہ پر کنٹرول کھو دیا ہے، انہوں نے صورتحال کو ’2 دھاری تلوار‘ کے طور پر بیان کیا، جو ان کے بقول روپے اور معیشت، دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے اندر رہنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور مبینہ طور پر غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاری کر رہی ہیں۔

کرنسی ڈیلرز نے کہا کہ گرے مارکیٹس کی کم از کم 3 اقسام ہیں، پہلی قسم انفرادی یا فرمز کی ہے جو بغیر لائسنس کے کرنسی میں تجارت کرتی ہیں، دوسری قسم متعدد ایکسچینج فرمز کی ہے جن کی فروخت کی قیمت تقریباً گرے مارکیٹ ریٹ کے برابر ہے، تیسری قسم ملک سے باہر کام کرنے والی گرے مارکیٹ کی ہے۔

اوورسیز آپریٹرز سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ ڈالر پاکستان میں نہیں آتے، پاکستان میں بھیجنے والوں کو صرف مقامی کرنسی فراہم کی جاتی ہے، ترسیلات زر میں کمی کی وجہ بھی یہی ہے۔

پاکستان کو جولائی میں ترسیلات زر میں 50 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا اور گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں رواں برس اس میں 2 ارب ڈالر تک کمی آگئی، گزشتہ مالی سال میں ملک کو ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ حکومت، کرنسیوں کے غیر قانونی آپریٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن کر سکتی ہے اور ایران اور افغانستان کو ڈالر کی اسمگلنگ کم کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرنسی ٹریڈنگ سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اور ہزاروں لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں، یہ انتہائی پرکشش ہے اور ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی سے آمد کو راغب کرنے کا کامیاب طریقہ ہے۔

تاہم گرے مارکیٹ اور آئی ایم ایف کے علاوہ کئی ماہرین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں جو کہ کمزور شرح تبادلہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت مں جب نگران سیٹ اپ نے اقتدار سنبھالا ہو۔

تیار ٹیکسٹائل مصنوعات کے برآمد کنندہ عامر عزیز نے کہا لفظ ’نگران‘ پہلے سے موجود بےیقینی کو بڑھا دیتا ہے، جو کچھ ہم نے پچھلی حکومت کے دوران کھویا، یہ حکومت اس سے کہیں زیادہ کھوئے گی۔

ٹریس مارک کے سی ای او فیصل مامسا نے کہا کہ نگران حکومت اپنی طے شدہ صلاحیت سے تجاوز کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے مارکیٹوں کو متضاد پیغام پہنچ رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں