آٹو فنانسنگ میں مسلسل 13ویں مہینے کمی

اپ ڈیٹ 29 اگست 2023
انڈس موٹرز کا بعد از ٹیکس منافع 30 جون 2023 کو مالی سال کے اختتام پر 39 فیصد گر کر 9 ارب 66 کروڑ روپے رہ گیا —فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈس موٹرز کا بعد از ٹیکس منافع 30 جون 2023 کو مالی سال کے اختتام پر 39 فیصد گر کر 9 ارب 66 کروڑ روپے رہ گیا —فائل فوٹو: اے ایف پی

گاڑیوں کی کم طلب اور شرح سود میں اضافے سے آٹو سیکٹر میں بحران کی صورتحال برقرار ہے کیونکہ مسلسل 13ویں مہینے گاڑیوں کے لیے دیے گئے واجب الادا قرضے 8 ارب 50 کروڑ روپے کم ہو کر جولائی کے اختتام تک 285 ارب 20 کروڑ روپے رہ گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 میں فنانسنگ 368 ارب روپے کی بُلند ترین سطح پر تھی، اس کے بعد سے اس میں کمی ہو رہی ہے جو شرح سود 22 فیصد ہونے کا نتیجہ ہے، اس کے علاوہ گاڑیوں کے لیے کم قرضوں کی صورتحال مرکزی بینک کی جانب سے طلب کم کرنے کے لیے اٹھائے گئے متعدد اقدمات کی وجہ سے ہوئی، جس کے سبب گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔

مرکزی بینک کی جانب سے گاڑیوں کے لیے قرضے کی زیادہ سے زیادہ حد 30 لاکھ کرنے اور ادائیگی کی مدت کم کرنے کی وجہ سے بھی مقامی اسمبلرز کی فروخت کو دھچکا لگا۔

اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف نے بتایا کہ کائبور پلس کے بعد 25 فیصد شرح سود اور طلب کو سست کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات کے بعد بینک فنانسنگ کے ذریعے گاڑیاں خریدنے سے گریز کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینکوں کے ذریعے نئی گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جارہی جبکہ خالص واجب الادا قرضے کم ہو رہے ہیں۔

فہد رؤف نے بتایا کہ مارکیٹ میں متضاد رپورٹس ہیں کہ بڑھتی مہنگائی کے سبب شرح سود میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے یا پھر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے سبب گاڑیوں کی قیمتیں مزید بڑھنے کے خدشات کے پیش نظر شرح سود کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ آٹو سیکٹر دسمبر تک بحران کا شکار رہے گا اور گاڑیوں کی فروخت 2024 کے دوران بھی کم رہیں گی کیونکہ شرح سود میں بڑی تنزلی اور روپے کی قدر میں استحکام کا کوئی عندیہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود میں فوری کمی نہیں ہوگی تاہم اس میں 2024 کی دوسری ششماہی تک بتدریج کمی ہوسکتی ہے۔

انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو علی اصغر جمالی نے بتایا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں آٹو موبائل انڈسٹری کو بدترین بحران کا سامنا ہے، پورے سال کے دوران مقامی اور عالمی خلل کے ساتھ سی کے ڈی کٹس کی درآمدات پر پابندیوں کے نتیجے میں پلانٹ کی بندش ہوئی، جس کے نتیجے میں انڈسٹری سے بڑی تعداد میں بیروزگاری ہوئی۔

انڈس موٹرز کے نفع میں کمی

انڈس موٹرز کا بعد از ٹیکس منافع 30 جون 2023 کو مالی سال کے اختتام پر 39 فیصد گر کر 9 ارب 66 کروڑ روپے رہ گیا، جو مالی سال 2022 کے دوران 15 ارب 80 کروڑ روپے تھا، مقامی طور پر اسمبل شدہ اور درآمدی گاڑیوں کی فروخت 58 فیصد تنزلی کے بعد 75 ہزار 611 سے کم ہو کر 31 ہزار 602 کی سطح پر آگئی۔

کمپنی نے 72 ہزار 438 یونٹس کے مقابلے میں 32 ہزار 696 یونٹس اسمبل کیے، خالص فروخت ٹرن اوور مالی سال 2023 کے دوران 36 فیصد گر کر 177 ارب 71 کروڑ روپے ہو گیا جو مالی سال 2022 کے دوران 275 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا تھا۔

بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 29 روپے فی حصص ڈیونڈڈ کیا، جس کے بعد پورے سال کے لیے ڈیونڈڈ 71 روپے 80 پیسے ہو گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں